طیارہ حادثے کے بعد حکومتی تحقیق اور رویے پر سوالیہ نشان

احمدآباد طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ نے شفافیت سے زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ پائلٹوں کی گفتگو، ایندھن کنٹرول سوئچز کی اچانک تبدیلی اور بوئنگ و حکام کو دی گئی کلین چٹ پر ماہرین نے تحفظات ظاہر کیے ہیں

<div class="paragraphs"><p>احمد آباد طیارہ حادثہ کا مقام / آئی اے این ایس</p></div>

احمد آباد طیارہ حادثہ کا مقام / آئی اے این ایس

user

آدتیہ آنند

ایئر انڈیا کی پرواز اے آئی-171 کے حادثے پر ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بیورو (اے اے آئی بی) نے 12 جولائی کی شب اپنی ابتدائی رپورٹ جاری کی لیکن اس عمل میں نہ تو کوئی میڈیا بریفنگ ہوئی، نہ پریس کانفرنس۔ رپورٹ محض ایک سرکاری ویب سائٹ پر خاموشی سے اپلوڈ کر دی گئی۔ ایسا تاثر ملا جیسے رپورٹ جاری کرنا ہی کافی ہو اور عوام کی سلامتی یا خدشات کو دور کرنا ادارے کی ذمہ داری نہیں۔

یہ رپورٹ اس حادثے کے ایک ماہ بعد آئی، جس میں احمدآباد سے لندن جانے والی پرواز محض 32 سیکنڈ بعد گر کر تباہ ہو گئی اور 260 افراد کی جان چلی گئی۔ رپورٹ میں جہاں کچھ نکات واضح کیے گئے، وہیں کئی اہم پہلووں پر خاموشی اختیار کی گئی، جس سے حادثے کے حقائق مزید الجھ گئے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، حادثے سے چند گھنٹے پہلے، اسی طیارے کو دہلی سے احمدآباد لانے والے پائلٹ نے ’اسٹیبلائزر پوزیشن ٹرانسڈیوسر‘ میں خرابی کی نشاندہی کی تھی۔ یہ ایک حساس سینسر ہوتا ہے جو طیارے کے توازن اور پرواز کی نگرانی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تکنیکی عملے نے خرابی دور کرنے کی اطلاع تو دی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خرابی پرواز کے کنٹرول میں خلل ڈال سکتی ہے، حتیٰ کہ انجن کو بند کرنے جیسے خودکار احکامات بھی جاری کر سکتی ہے۔

اسی لاگ میں ایک اور برقی خرابی اور ایندھن کی غلط وارننگ کا بھی ذکر ہے، جو کسی پیٹرن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اے اے آئی بی کی رپورٹ میں ان وجوہات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ سب حادثے سے جڑی اہم کڑیاں ہیں۔


ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پرواز نے 13:38:42 آئی ایس ٹی پر 180 ناٹ کی رفتار حاصل کی۔ اس کے فوری بعد دونوں ایندھن کنٹرول سوئچز اچانک ’رن‘ سے ’کٹ آف‘ ہو گئے، جس کے نتیجے میں دونوں انجنوں کی طاقت ختم ہو گئی۔ کریو نے فوری طور پر اے پی یو اور آر اے ٹی ایکٹیویٹ کر کے انجنوں کو دوبارہ چلانے کی کوشش کی، جن میں سے ایک انجن جزوی طور پر بحال بھی ہوا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ محض 32 سیکنڈ بعد، طیارہ رن وے سے 1.5 کلومیٹر دور زمین سے ٹکرا گیا۔

سب سے زیادہ توجہ کھینچنے والی بات وہ گفتگو ہے جو کاک پٹ وائس ریکارڈر میں محفوظ ہوئی۔ ایک پائلٹ نے کہا، ’’تم نے کٹ آف کیوں کیا؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا، ’’میں نے نہیں کیا۔‘‘ نہ تو آواز کی شناخت ممکن ہو سکی، نہ یہ واضح ہو سکا کہ بات کر کون رہا تھا، کپتان یا شریک پائلٹ۔ کچھ تجزیہ کاروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کہیں یہ خودکشی کا معاملہ تو نہیں لیکن رپورٹ میں درج واقعات سے یہ مفروضہ بھی کمزور دکھائی دیتا ہے، کیونکہ پائلٹوں نے انجنوں کو دوبارہ چلانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اگر خودکشی مقصود ہوتی، تو یہ کوشش کیوں کی جاتی؟

ایوی ایشن ایکسپرٹ کیپٹن امِت سنگھ کہتے ہیں کہ ایف اے ڈی ای سی (فل اتھارٹی ڈیجیٹل انجن کنٹرول) صرف برقی احکامات کو ریکارڈ کرتا ہے، یہ نیت یا حرکت کی تصدیق نہیں کرتا۔ یعنی یہ بتا تو سکتا ہے کہ سوئچ کی حالت بدلی گئی، مگر یہ نہیں کہ کیسے یا کیوں۔

ایئر انڈیا کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تھراٹل کنٹرول ماڈیول (ٹی سی ایم) کو پہلے 2019 اور پھر 2023 میں بدلا گیا تھا۔ ان تبدیلیوں کا تعلق کسی خرابی سے نہیں بتایا گیا، مگر وقت کے تناظر میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ 2018 میں ایف اے اے نے اس ماڈیول میں کمزوریاں تسلیم کی تھیں لیکن یہ بلیٹن لازمی نہیں تھا، اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا۔


اس حادثے کی رپورٹ میں ایک اور تشویش ناک خاموشی یہ ہے کہ ایف اے اے کے سروس بلیٹن پر عمل نہ کرنے پر بھی کوئی سخت تبصرہ نہیں کیا گیا، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی احتیاطی ہدایات کو نظرانداز کرنا خطرناک رجحان ہے۔ اگرچہ بوئنگ، جی ای اور ایئر انڈیا کو ابتدائی رپورٹ میں کلیئر کر دیا گیا لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ قبل از وقت اور مشتبہ ہے۔

پائلٹس کی عالمی تنظیم ’آئی ایف اے ایل پی اے‘ نے بھی تنبیہ کی ہے کہ تحقیقات کو وقت سے پہلے نتائج سے دور رکھا جائے۔ ریاستی سطح پر بھی تنقید سامنے آئی ہے۔ راجیہ سبھا رکن پرینکا چترویدی نے برہمی ظاہر کی کہ انڈین میڈیا سے پہلے بین الاقوامی میڈیا کو رپورٹ کی معلومات کیسے ملی؟ سابق فوجی سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش نے اسے ’پیچیدہ مگر سطحی رپورٹ‘ قرار دیا۔

شکتی لُمبا جیسے ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں نہ صرف کئی اہم تکنیکی پہلو نظرانداز کیے گئے، بلکہ ایئر لائن اور مینوفیکچررز کے تئیں نرمی نے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس سانحے میں بھی عدالتی انکوائری ہونی چاہیے۔

دوسری طرف، ہندوستان میں ہر مہینے کسی نہ کسی فلائٹ میں تکنیکی خرابی کی خبریں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے آر ٹی آئی کے مطابق، 2020 سے اب تک 65 انجن فیلئیر ہو چکے ہیں۔ رواں سال جنوری سے مئی کے درمیان 11 فلائٹس نے ‘مے ڈے’ کال یعنی ایمرجنسی لینڈنگ کی درخواست کی۔


یہ تمام واقعات ہوابازی کے بنیادی اصول ’عوام کا اعتماد‘ پر ضرب ہیں۔ وہ صرف مشین پر نہیں، بلکہ اس نظام پر بھروسہ کرتے ہیں جو ان مشینوں کو چلاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور خرابی کی صورت میں شفاف انداز میں جوابدہ ہوتا ہے۔ 1148 بوئنگ ڈریم لائنر اس وقت بھی فضاؤں میں پرواز کر رہے ہیں، جن میں سے 32 ایئر انڈیا کے پاس ہیں۔ ایسے میں عالمی ہوابازی برادری کی نظریں ہندوستان، ایئر انڈیا، بوئنگ اور ڈی جی سی اے پر ہیں کہ وہ اس سنگین حادثے کے بعد کیسے آگے بڑھتے ہیں۔

اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ بظاہر صرف تکنیکی تقاضوں کی تکمیل معلوم ہوتی ہے، نہ کہ مکمل سچائی کی تلاش۔ آخری رپورٹ آنے میں اگر واقعی دو سال لگ سکتے ہیں، تو تب تک یہ 32 سیکنڈ کا حادثہ، دو سوئچ اور درجنوں غیر حل شدہ سوالات ایک زندہ المیہ بنے رہیں گے۔

ابتدائی رپورٹ میں کیا بتایا گیا؟

  • رپورٹ میں حادثے کا ایک مختصر اور ترتیب وار بیان شامل ہے۔

  • فیول کنٹرول سوئچز کی ’رن‘ سے ’کٹ آف‘ میں تبدیلی کی درست ٹائم لائن واضح نہیں ہے۔

حادثے کے اہم تکنیکی لمحات:

  • 13:38:42 آئی ایس ٹی پر طیارہ 180 ناٹس کی رفتار (ٹیک آف ویلوسٹی) پر پہنچا۔

  • فوراً بعد دونوں فیول کنٹرول سوئچز ’رن‘ سے 'کٹ آف‘ پر چلے گئے۔

  • اس سے دونوں انجنوں کی طاقت ختم ہونے لگی، جیسے فیول مکمل ختم ہو گیا ہو۔

  • پائلٹس نے فوری طور پر فیول سوئچز کو واپس ’رن‘ پر کیا اور اے پی یو (آگزیلری پاور یونٹ) کو چالو کیا۔

  • ایک انجن میں جزوی بحالی کے آثار ظاہر ہوئے۔

  • 13:39:14 آئی ایس ٹی پر طیارہ رن وے سے 1.5 کلومیٹر دور گر کر تباہ ہو گیا۔


کاک پٹ وائس ریکارڈر (سی وی آر) سے گفتگو:

  • ایک پائلٹ نے کہا، ’آپ نے کٹ آف کیوں کیا؟‘

  • دوسرے نے جواب دیا، ’میں نے نہیں کیا۔‘

  • واضح نہیں کہ ’کٹ آف‘ کا مطلب فیول کٹ آف ہے یا کچھ اور۔

  • گفتگو کے ذرائع (کپتان، فرسٹ آفیسر یا ماحول میں موجود مائیک) کی شناخت ممکن نہیں۔

  • سوئچ کلک کی آواز کا کوئی ذکر نہیں، جو دستی حرکت کی تصدیق کرتا۔

بیرونی یا تکنیکی عوامل:

  • کوئی بیرونی الارم یا وارننگ نہیں ملی۔

  • طیارہ تکنیکی طور پر درست حالت میں تھا۔

  • فیول میں کسی خرابی کی تصدیق نہیں ہوئی۔

  • اس کے باوجود، دونوں انجن ایک ساتھ فیل ہو گئے۔

اب بھی نامعلوم پہلو:

  • رپورٹ میں ’کیا ہوا‘ تو بتایا گیا ہے، مگر ’کیوں ہوا‘ پر خاموشی ہے۔

  • انجن بند ہونے کے وقت طیارے کی بلندی کا کوئی ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔

  • یہ معلوم نہیں کہ طیارہ 400 فٹ کی حفاظتی حد سے آگے جا چکا تھا یا نہیں۔

  • سی وی آر کی ٹرانسکرپٹ ادھوری ہے؛ صرف ایک مختصر مکالمہ شامل ہے۔

  • تھراٹل کنٹرول باکس (ٹی سی بی) کے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئی:

    • کیا کسی لرزن نے کوئی خفیہ خرابی پیدا کی؟

    • یا اچانک سوئچ ڈس انگیج ہو گیا؟

✦ اہم ڈیٹا غیر موجود:

  • سی پی ایل (کانٹییس پیرامیٹر لاگنگ) اور اے ایچ ایم (ایئرکرافٹ ہیلٹھ مانیٹرنگ) کا ڈیٹا تاحال عوامی نہیں ہوا۔

  • خیال کیا جاتا ہے کہ بوئنگ اور جی ای کے پاس ان نظاموں تک رسائی ہے۔

✦ ممکنہ وجوہات پر خاموشی:

  • رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ:

    • یہ واقعہ انسانی غلطی تھی؟

    • ڈیزائن کی خامی؟

    • ٹیکنیکل سگنل میں خرابی؟

    • یا کچھ اور؟

  • یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انجن شٹ ڈاؤن:

    • جان بوجھ کر کیا گیا،

    • حادثاتی طور پر،

    • یا کسی فنی خرابی کی وجہ سے۔

    رپورٹ میں موجود خلا اور خاموشی اندازوں، شک و شبہات اور افواہوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔