موربی پل حادثہ کے بعد جھولتے نظر آ رہے کئی سوالات...آر کے مشرا

لوگ درست کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے ہی احتیاط کیا جاتا اور اپنی پسند کے صنعت کار کو سب کچھ سونپ دینے کا ’گجرات ماڈل‘ نہ اختیار کیا جاتا تو موربی حادثہ ہوتا ہی نہیں

موربی میں پل منہدم / Getty Images
موربی میں پل منہدم / Getty Images
user

آر کے مشرا

سوراشٹر میں موربی کی شناخت سریمک سٹی کی رہی ہے۔ ہندوستان کے 70 فیصد سریمک، یعنی گھر بنانے میں استعمال کیا جانے والا ٹائلس اور پائپ سے لے کر چینی مٹی وغیرہ کے مصنوعات یہیں بنتے ہیں۔ یہاں اس کی تقریباً 1000 یونٹس ہیں۔ 1995 کے بعد گزشتہ انتخاب میں پہلی بار موربی سے کانگریس امیدوار کی جیت ہوئی تھی۔ اس وقت جس طرح پاٹیدار تحریک عروج پر تھا اور گزشتہ کئی سال سے ناراضگی پنپ رہی تھی، اس میں یہ انتخابی نتیجہ حیرت انگیز نہیں تھا۔ لیکن کانگریس رکن اسمبلی کے طور پر برجیش بھائی میجرا بہت دنوں تک پارٹی میں نہیں رہے اور وہ بی جے پی میں چلے گئے۔ اس وجہ سے 2020 میں ضمنی انتخاب ہوئے اور میجرا بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخاب جیت گئے۔ یہی حال موربی میونسپلٹی کا رہا۔ پاٹیدار ریزرویشن تحریک کے مرکز رہے موربی نے 2016 میونسپل الیکشن میں کانگریس کو اقتدار سونپی تھی۔ بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کے لیے گجرات حکومت نے فنڈ گھٹا کر اور سہولیات واپس لے کر اس صنعتی شہر کو سزا دی۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد جون 2017 میں بی جے پی نے میونسپلٹی پر تب قبضہ کر لیا جب 32 میں سے 15 کانگریس کونسلروں نے پالا بدل لیا۔

اس بار پاٹیدار تحریک نہیں ہے اور ایک پاٹیدار ہی وزیر اعلیٰ ہیں۔ پہلے یہاں آنندی بین پٹیل وزیر اعلیٰ تھیں جب کہ ان کے گورنر بن جانے کے بعد بھوپیندر پٹیل وزیر اعلیٰ ہیں۔ لیکن موربی بجلی اور خام سامان کی قیمت بڑھتے جانے کے سبب مقابلے میں نہ ٹک پانے کی وجہ سے بے چین ہے۔ اس سال اگست میں سینکڑوں سریمک یونٹس پورے مہینے بند رہیں۔ گیس، کوئلے اور خام مال کی قیمت گھٹانے کے ان کے مطالبہ پر حکومت کی کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ قیمت بڑھنے کی وجہ سے سستے مکانات کی طلب میں کمی کا منفی اثر بھی سریمک یونٹس پر پڑا ہے۔

موربی میونسپلٹی کو میونسپل کارپوریشن بنانے کا مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا جس وجہ سے شہری اور صحت انفراسٹرکچر و سامان بڑھانے کے لیے مناسب ترقی سے متعلق رقم نہیں ملی۔ ابھی 30 اکتوبر کو جب موربی پل گرا، تب اسی لیے فائر بریگیڈ اور راحت خدمات کو 65 کلومیٹر دور راجکوٹ سے منگانا پڑا۔ دو دنوں بعد یکم نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی موربی آنے والے تھے، تو صاف قالین وغیرہ 105 کلومیٹر دور جام نگر سے آناً فاناً منگائے گئے۔

راحت اور بچاؤ کام میں تاخیر کو لے کر غصہ اس وجہ سے بھی ہے۔ کئی سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ اس پل کی تعمیر نو کرنے والی کمپنی اجنتا-اوریوا کا کہنا ہے کہ اس پر صرف دو کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے تھے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ جب اتنی کم رقم والا کام تھا تو اس کا ذمہ میونسپلٹی کو کیوں نہیں دیا گیا تھا؟ جھولنے والا یہ کیبل پل سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز تھا او راسے موربی کا فخر بتایا جاتا تھا۔ اسے درست کرنے اور اس کے رکھ رکھاؤ کے کام 2037 تک کے لیے اس کمپنی کو بغیر ٹنڈر ہی سونپ دیے گئے تھے۔ اس کی دیکھ ریکھ یا اس کے جائزہ کا ذمہ بھی کسی کو نہیں دیا گیا تھا۔ اب میونسپلٹی نے کہا ہے کہ مرمت کے بعد اس پل کو گجراتی نئے سال کی شروعات کے موقع پر 26 اکتوبر کو کھولے جانے سے پہلے اس کی سیکورٹی جانچ بھی نہیں کی گئی تھی اور سیکورٹی سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔


حکومتی رقم کا سیاسی تعصب سے اور چن کر کیے جانے والے خرچ، بھائی بھتیجہ واد والا سرمایہ دارانہ نظام، خامیوں سے بھرے پی پی پی ماڈل اور شہری سہولیات اور لوگوں کی زندگی کی سیکورٹی یقینی کرنے کے تئیں حکومت کا اپنی ذمہ داری سے پیچھا چھڑانے کی روش نے ایک بار پھر ’گجرات ماڈل‘ کی قلعی کھول دی ہے۔

بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے یہ ’انسان کا تیار کردہ حادثہ‘ غالباً سب سے برے وقت میں ہوا ہے۔ اسمبلی انتخاب آئندہ مہینے مجوزہ ہے اور وزیر اعظم گزشتہ کچھ مہینے سے جس طرح ’الیکشن موڈ‘ میں رہے ہیں، اس حادثہ نے ان کے سامنے نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ بی جے پی لیڈران ’حادثات کے وقت سیاحت‘ کرتے رہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ اور ریاست کے وزیر داخلہ کو ’بچاؤ کاموں کی دیکھ ریکھ‘ کے لیے رات بھر لگنا پڑا۔

وزیر اعظم کچھ دیر کے لیے ہی موربی آئے لیکن ان کے دورے کے وقت اچھی تصویر کے لیے مناسب انتظامات جلدی جلدی میں کیے گئے اور اس سب سے ان لوگوں میں سبھی جگہ غصہ دیکھا گیا جنھوں نے اس حادثہ میں اپنوں کو گنوایا یا اس حادثہ سے پریشان تھے۔ جب لاش گاہ میں لاشوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، اس وقت بھی موربی سرکاری اسپتال میں مرمت اور رنگ و روغن کے کام کو انجام دیا جا رہا تھا اور واٹر کولر لگائے جا رہے تھے۔ مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو چھ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا (ریاستی حکومت کی طرف سے چار لاکھ روپے اور مرکزی حکومت کی طرف سے پی ایم کیئرس فنڈ سے نہیں بلکہ وزیر اعظم قومی راحت فنڈ سے دو لاکھ روپے)۔ جو اپنوں سے محروم ہوئے، ان کے لیے ایسی رقم کی کیا اہمیت!

پرینکا جوگیانی اپنی دو اولادوں سے محروم ہو گئیں۔ 6 سال کی بیٹی اور 4 سال کا بیٹا۔ انھوں نے بلکتے ہوئے پوچھا کہ ان پیسوں کا وہ کیا کریں گی؟ کَچھ کے ونود اسپتال کے ملازمین کو حال ہی میں انگیجمنٹ کرنے والے ایک جوڑے کی تصویر دِکھا کر ایک شخص پوچھتے پھر رہے تھے کہ کیا ان میں سے کسی نے انھیں دیکھا ہے۔ یہ جوڑی حادثہ کے بعد سے ہی لاپتہ تھی۔ سول اسپتال کی تازہ تازہ رنگ و روغن کی گئی دیوار کے پاس وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس حادثہ میں کانتابین نے اپنے سبھی تین بیٹے گنوا دیے۔ سب سے بڑا چراغ 20 سال کا تھا۔ وہ چشمہ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام شروع کرنے والا تھا۔ اس سے چھوٹا دھارمک کچھ ہی ہفتوں میں 18 سال کا ہو جاتا۔ سب سے چھوٹا چیتن دسویں میں پڑھتا تھا۔ وہ اتوار گزارنے کے خیال سے پل پر گئے تھے لیکن کبھی نہیں لوٹے۔ کانتابین اور ان کے شوہر راجیش نے اسپتال سے دیر رات ان تینوں کے بے دم جسم حاصل کیے۔

کیا ان کچھ ایک نیوز رپورٹس کی یہ بات سچ ہے کہ موربی کے ضلع مجسٹریٹ نے اوریوا گروپ کو یہ ٹھیکہ دینے سے شروع میں ہی منا کر دیا تھا؟ ان غیر مصدقہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ گاندھی نگر سے آئے ایک فون کال نے مارچ 2022 میں اس گروپ کو یہ ٹھیکہ پھر دینے کو مجبور کیا۔ دراصل گروپ کو دیا گیا ٹھیکہ 2018 میں ختم ہو گیا تھا اور اسے رینیو نہیں کیا گیا تھا۔ موربی سے ملی جانکاری میں بتایا گیا ہے کہ تب بھی گروپ اس پل کے کام پر کنٹرول کر رہا تھا۔ یہ گروپ 800 کروڑ کا ہے اور اس کے ذمہ داران کی اچھی خاصی سیاسی رسائی ہے۔ ان کی بی جے پی کے اہم لیڈروں کے ساتھ تصویریں اب وائرل ہو رہی ہیں۔ اس بات کی جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے کہ کیا اسی سیاسی رسائی کی وجہ سے یہ ٹھیکہ اس گروپ کو دیا گیا تھا جب کہ اسے کسی پل کی تعمیر، مرمت یا دیکھ ریکھ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔


اوریوا گروپ اجنتا برانڈ کی دیوار گھڑی بناتا ہے۔ سابق سائنس ٹیچر اودھوجی راگھوجی پٹیل نے 1971 میں اس کو قائم کیا تھا۔ وہ 45 سال کی عمر میں صنعت کار بنے اور بعد میں ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر بھی اس گروپ کا کاروبار پھیلتا گیا اور وہ ہوم ایپلائنس، ای-بائکس، سریمک مصنوعات، سی ایف ایل اور ایل ای ڈی لائٹس کا بھی پروڈکشن کرنے لگا۔ اوریوا گروپ میں 6000 لوگ کام کرتے ہیں۔ اس کی پروڈکٹس 60 سے زائد ممالک میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ اس کے ہندوستان میں 25000 ڈیلر اور 18 سروس سنٹر ہیں۔ لیکن وہ کسی تعمیری کام میں بھی لگا ہے، اس بارے میں اس کی ویب سائٹ میں بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ سوال ٹھیک ہی پوچھا جا رہا ہے کہ کسی ’گھڑی ساز‘ کو 143 سال پرانے جھولتے ہوئے پل کی مرمت اور اس کے مینجمنٹ کا ٹھیکہ کس بنیاد پر سونپ دیا گیا؟

اس صدی کی شروعات میں اس کمپنی کے 15000 ملازمین تھے۔ لیکن آٹومیشن اور اپنے پروڈکشن کے کچھ حصے کو چین لے جائے جانے کی وجہ سے یہاں ملازمین کی تعداد کم کر دی گئی۔ گروپ نے 2001 میں rediff.com کو بتایا تھا کہ ’ہم اپنے سامان کو چین میں تیار کریں گے اور اسے ہندوستان کو برآمد کریں گے۔ ہمارے لیے ہندوستان میں صنعت چلانا ممکن نہیں ہے۔‘ اوریوا گروپ کا ہندوستان میں سب سے بڑا مینوفیکچرنگ پلانٹ گجرات کے کَچھ ضلع میں ساماکھیالی میں ہے اور یہ 200 سے زیادہ ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے ’سوراشٹر کا فخر‘ بتایا جاتا ہے۔ یہ اجنتا اور اورپیٹ نام سے گھڑیاں اور سی ایف ایل و ایل ای ڈی لائٹنگ پروڈکٹ بناتا ہے۔ یہ اس علاقہ میں ہندوستان کے بڑے مینوفیکچررس میں ایک ہے۔

پل مرمت کے لیے غالباً اسی لیے ٹنڈر طلب نہیں کیا گیا کیونکہ یہ بہت ہی چھوٹا کام ہے۔ اس صنعتی گروپ کو رکھ رکھاؤ کا ٹھیکہ 2008 میں دیا گیا جو 2018 میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد نئے ٹھیکے پر مارچ 2022 میں دستخط ہوئے۔ یہ اسے 15 سال کے لیے سونپ دیا گیا۔ اس سال مارچ میں اجنتا مینوفیکچرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (اوریوا گروپ) اور موربی میونسپلٹی کے درمیان ہوئے معاہدہ میں یہ عجیب شرط بھی تھی کہ حکومت یا کسی بھی سرکاری ایجنسی کی مداخلت کام میں نہیں ہوگی۔ پہلے تو، ایسی شرط رکھی ہی کیوں گئی؟ یہ پل حکومت کی ملکیت ہے جس پر مرمت اور تعمیر کی دیکھ ریکھ اور لوگوں کی سیکورٹی یقینی کرنے کی آئینی ذمہ داری ہے۔ حادثہ کے بعد جلدی جلدی پل سے کمپنی کے نام کے بورڈ کو چھپا دیا گیا جب کہ کمپنی اس پل کا استعمال مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے لیے کر رہی تھی۔ اس کمپنی کے پاس پل کی مرمت، رکھ رکھاؤ، صاف صفائی، اس پر آنے جانے کے لیے لگائی جانے والی رقم کے جمع کرنے اور ملازمین کی تقرری کے حقوق تھے اور وہ ان کا استعمال کر رہی تھی۔

ویسے کمپنی کو کتنی فیس وصولنے کی اجازت تھی، اس سلسلے میں بھی کافی تذبذب کی حالت ہے۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو معاہدہ تھا، اس کے مطابق کمپنی 23-2022 تک فی کس 15 روپے وصول سکتی تھی جسے 28-2027 تک ہر سال 2 روپے بڑھایا جانا تھا۔ دیگر رپورٹس میں اسے 15 روپے کی جگہ 10 روپے، بچوں سے 7 روپے اور طلبا سے 2 روپے وصولنے کا حق بتایا جا رہا ہے۔ حادثہ کے بعد سوشل میڈیا پر جو اسکرین شاٹ وائرل ہوئے، ان میں مہر لگی ٹکٹوں پر 17 روپے کی رقم درج ہے۔ اس لیے یہ ممکن لگتا ہے کہ کمپنی منمانی رقم وصول کر رہی تھی۔


اس بارے میں بھی تذبذب برقرار ہے کہ یہ پل کتنا وزن برداشت کر سکتا تھا۔ کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت یہ اصول تھا کہ ایک وقت میں صرف 15 لوگ ہی پل پر رہ سکتے ہیں۔ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ پل ایک ساتھ 125 لوگوں کا وزن برداشت کر سکتا تھا۔ یہ حادثہ 30 اکتوبر کو شام 6.30 بجے ہوا اور بتایا گیا کہ اس دن تقریباً 600 ٹکٹوں کی فروخت ہوئی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ حادثہ کے وقت پل پر 400 سے 600 لوگ تھے۔ یہ رپورٹ لکھے جانے کے وقت 141 اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 100 سے زیادہ لوگوں کو بچا لیا گیا اور کچھ لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ اس لیے مرنے والوں کی تعداد 200 سے 300 کے درمیان ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگر شام 6.30 بجے تقریباً 250 لوگ ہی پل پر تھے، تو دن کے دوران کتنے لوگ پل پر آئے تھے؟

معاہدہ میں ٹرانسپورٹیشن اور کاروباری تفصیلات کو تو ظاہر کیا گیا ہے، لیکن کسی حادثہ کی حالت میں ذمہ داری یقینی کرنے کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ عام طور پر مقامی سرکاری باڈی کو جائزہ کا حق ہوتا ہے جبکہ سیکورٹی یقینی کرنے کی ذمہ داری آپریٹر پر ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ موربی پل حادثہ انتخاب کا ایشو بنے گا؟ عام آدمی کی قیمت پر کارپوریٹ گروپ کو جس طرح توجہ دی جا رہی ہے، وہ بی جے پی کے خلاف غصے کی وجہ بن رہی ہے۔ موربی حادثہ اس توجہ کی ہی ایک مثال ہے۔ فطری ہی ہے کہ ناقدین پوچھ رہے ہیں کہ یہ ’ایکٹ آف گاڈ‘ ہے یا ’ایکٹ آف فراڈ‘؟ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش کا تبصرہ مزید تلخ تھا۔ انھوں نے کہا کہ گجرات مسافر طیارہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا لیکن یہ ایک پل کی دیکھ بھال تک نہیں کر پایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔