آفات اور فصل کی بربادی کے بعد گھوٹالوں کا سیلاب... ہرجندر

گھوٹالہ کے اصل قصوروار کبھی پکڑے جائیں گے یا نہیں، یہ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن پنجاب و ہریانہ کے کسانوں کو اس وقت شدید نقصان ہوا جب آفات اور کم پیداوار کے بعد انھیں مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

کسان، تصویر یو این آئی
i
user

ہرجندر

پنجاب اور ہریانہ میں اس بار دھان کی کٹائی کا سیزن انتہائی مایوسی کے درمیان شروع ہوا تھا۔ پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں سیلاب تھا اور ہر طرف سے فصل خراب ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہریانہ کے ایک بڑے حصے کا بھی یہی حال تھا۔ برسات کا سیزن بہت لمبا کھنچنے کے باعث یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اس بار پیداوار کم رہنے والی ہے۔ لدھیانہ کی پنجاب ایگریکلچر یونیورسٹی نے بھی اپنی اسٹڈی میں پیداوار کم ہونے کی بات قبول کی تھی۔ خدشہ تھا کہ یہ کمی 15 سے 20 فیصد تک ہو سکتی ہے۔

پھر جیسے کوئی معجزہ ہو گیا۔ منڈیوں میں دھان کی سرکاری خرید شروع ہوئی تو پرانے ریکارڈ ٹوٹنے لگے۔ اچانک دھان اتنا آ گیا کہ منڈیوں کا انتظام لڑکھڑانے لگا۔ کچھ جگہ تو انہیں رکھنے کی بوریاں کم پڑ گئیں۔ وقت سے پہلے ہی دھان کی خرید کے تمام ہدف پورے کر لیے گئے۔ خرید روک دی گئی، جبکہ منڈیوں کے باہر بہت سے کسان اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے۔


اسے سمجھنے کے لیے ہمیں پنجاب کے 3 سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ اضلاع میں جانا ہوگا۔ امرتسر کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہاں 61,256 ایکڑ زمین پر دھان کی فصل پوری طرح برباد ہو گئی۔ پچھلے سال انڈین فوڈ کارپوریشن نے امرتسر کی منڈیوں سے 2.98 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا تھا، جبکہ اس بار نومبر کا دوسرا ہفتہ شروع ہونے تک 3.02 لاکھ میٹرک ٹن خرید ہو چکی تھی۔

یہی حال فاضلکہ اور ترنتاڑن کا تھا۔ فاضلکہ میں 33,123 ایکڑ پر کھڑی دھان کی فصل سیلاب کے باعث برباد ہوئی تھی، جبکہ ترنتاڑن میں 23,308 ایکڑ کی فصل سیلاب میں ڈوب گئی تھی۔ فاضلکہ میں پچھلے سال 2.14 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا گیا تھا۔ اس سال بھی اتنا ہی دھان خریدا جا چکا ہے۔ ترنتاڑن میں پچھلے سال 9.02 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا گیا تھا۔ اس سال خرید کا سیزن ختم ہونے سے پہلے ہی 9.29 لاکھ میٹرک ٹن خرید ہو چکی تھی۔


یہ حال پنجاب کا ہی نہیں، ہریانہ کا بھی ہے۔ وہاں تو سرکاری منڈیوں نے نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہی اپنا ہدف حاصل کر لیا تھا۔ اندازہ ہے کہ ہریانہ میں پچھلے سال کے مقابلے ابھی تک 5 لاکھ میٹرک ٹن دھان کی زیادہ خرید ہو چکی ہے۔ اب منڈیوں میں سرکاری خرید بند ہو چکی ہے۔ جن کا دھان نہیں فروخت ہو سکا وہ کسان باہر تاجروں کو اونے پونے دام پر اپنی پیداوار فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ ہوا کیسے، اسے لے کر ہر جگہ ایک ہی بات کہی جا رہی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ دونوں ہی جگہ یہی سننے میں آ رہا ہے کہ اتر پردیش اور راجستھان سے سستا دھان لا کر یہاں منڈیوں میں بیچا گیا۔ ان دونوں ہی صوبوں میں منڈی کا نظام پنجاب اور ہریانہ جتنا اچھا نہیں ہے، اس لیے عام طور پر کسان تاجروں کو سستے داموں پر اپنی پیداوار بیچ دیتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ کام مختلف سطحوں پر تاجروں کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔


ایسا گھوٹالہ نہ ہو سکے، اس کے لیے ہریانہ حکومت نے ایک نظام بنایا تھا۔ وہاں ’میری فصل، میرا بیورا‘ نامی ایک پورٹل بنایا گیا تھا۔ اس پورٹل پر کسان کو اپنی کاشت کے قابل زمین کے مطابق پیداوار فروخت کرنے کا منڈی کا گیٹ پاس دیا گیا۔ کہا یہی گیا کہ گیٹ پاس کے بغیر کوئی بھی منڈی میں دھان نہیں لے جا سکتا۔ لیکن افسروں نے اس میں بھی چور دروازے چھوڑ دیے۔ عام طور پر ایک ایکڑ کے کھیت میں دھان کی پیداوار 25 کوئنٹل کے آس پاس ہوتی ہے۔ لیکن گیٹ پاس 35 کوئنٹل فی ایکڑ کے حساب سے جاری کیے گئے۔ ظاہر ہے، منڈی میں اضافی دھان بیچنے کا راستہ نکال لیا گیا تھا۔

بھارتیہ کسان یونین کے صدر گرنام سنگھ چڈھونی کا الزام ہے کہ اس پورٹل میں ایسے کھیت بھی درج کر دیے گئے ہیں، جہاں دھان کی کاشت ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کے نام پر گیٹ پاس جاری ہو رہے ہیں اور فصل کہیں اور سے آ رہی ہے۔ یہ سب چل ہی رہا تھا کہ خبریں آنے لگیں کہ منڈی میں داخلے اور فروخت کے لیے جعلی گیٹ پاس استعمال ہو رہے ہیں۔ جب ایسے معاملات سامنے آئے تو حکومت نے گیٹ پاس کی جگہ کسانوں کو کیو آر کوڈ دینا شروع کیا۔ لیکن تب تک خرید کا سیزن تقریباً ختم ہو چکا تھا۔


دیر سے ہی سہی، حکومت کو مجبوراً بیرونی ریاستوں سے دھان لانے پر روک لگانی پڑی۔ کیا اس سے مسئلہ ختم ہو گیا؟ روک دھان لانے پر لگی تھی، چاول لانے پر نہیں۔ ہریانہ کے کسان لیڈروں کا الزام ہے کہ دوسرے صوبوں سے بڑے پیمانے پر چاول خرید کر لایا جا رہا ہے۔ کاغذوں میں دھان بتا کر اس کی خرید ہوتی ہے اور فوراً ہی منڈی سے اس کا اٹھان بھی ہو جاتا ہے۔

دھان کی خرید کا گھوٹالہ سب سے پہلے کرنال میں بے نقاب ہوا۔ پہلے کسان تنظیموں اور پھر سیاسی پارٹیوں نے اسے لے کر مظاہرے کیے۔ مجبوراً حکومت کو اس کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی بنانی پڑی۔ بعد میں پتہ چلا کہ معاملہ صرف کرنال کا نہیں ہے، سبھی جگہ یہی حالات ہیں۔ کسان لیڈر چڈھونی نے اس کی سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔


ہریانہ اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا کا الزام ہے کہ یہ ہزاروں کروڑ روپے کا گھپلا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ریاست میں دھان کی جتنی پیداوار ہوئی ہے، اس سے زیادہ کی بازار میں خرید ہو چکی ہے، جبکہ کسانوں کو ایم ایس پی بھی نہیں مل رہی۔‘‘

پنجاب میں کسانوں نے اس مسئلہ سے اپنے طور پر نمٹنے کی جو کوششیں کی ہیں، ان سے نئے خطرے کھڑے ہو گئے ہیں۔ فاضلکہ میں راجپورہ پاٹلی سرحد پر راجستھان سے آنے والے دھان کے ٹرکوں کو روکنے اور واپس بھیجنے کا کام خود کسانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جواب میں راجستھان کے کسان بھی میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے پنجاب سے آنے والے کپاس کے ٹرک روکنے شروع کر دیے۔ راجستھان کی منڈیوں میں کپاس کے دام اچھے ملتے ہیں، اس لیے پنجاب کے کپاس کسان اپنی پیداوار وہیں بیچتے ہیں۔ دھان خرید کے ایک گھوٹالے نے 2 ریاستوں کے کسانوں کے درمیان تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ دھان خریداری گھوٹالہ کو لے کر فاضلکہ میں ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ خرید مقامی کسانوں سے ہی ہو، اس کے لیے پنجاب حکومت نے کچھ نظام بھی بنائے ہیں۔ لیکن دیر ہو چکی ہے۔ ہدف پورے ہو چکے ہیں۔ خرید کا سیزن بھی ختم ہو رہا ہے اور تقریباً ہر جگہ ایف سی آئی اپنی دکان سمیٹ رہی ہے۔


اس گھوٹالے کے اصل مجرم کبھی پکڑے جائیں گے یا انہیں سزا بھی ہو پائے گی، یہ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو ایسے وقت میں شدید نقصان پہنچا ہے، جب آفات اور کم ہو چکی پیداوار کے بعد انہیں مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔