آہ! بے لاگ اور بے خوف قلمکار حفیظ نعمانی

ملک کی آزادی اور اس کے بعد کے پر آشوب دور کا حفیظ نعمانی کو خاصہ تجربہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کو اپنی بے باکی اور جرأت مندی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور جیل میں بھی کچھ وقت گزارنا پرا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ گوش گزارہوئی کہ قلم کے مجاہد اور کہنہ مشق صحافی حفیظ نعمانی نے طویل علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! حفیظ نعمانی آخری دم تک ملک کے معروف ارد و اخبارات کو پابندی کے ساتھ بلا معاوضہ اپنی بے باک تحریروں سے مزین کرتے رہے۔

حفیظ نعمانی صاحب ابن مولانا منظور نعمانی صاحب ؒ کے انتقال کے ساتھ اردو صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، مرحوم تقریباً 90 سال اس دنیائے فانی میں گزار کر رخصت ہوئے۔ انھوں نے وطن عزیز کے مسائل کو موضوع بنایا، ملی مسائل سے خاص دلچسپی لی، جب لکھا تو بے لاگ لکھا خواہ کسی کو اس سے اختلاف ہو ،اور ضروری بھی نہیں کہ ہر شخص کی ہر بات سے ہر کوئی متفق ہو، مگر صاف صاف باتیں کرنا حفیظ صاحب کی خصوصیت تھی اور یہ صفت جس میں ہو مجھے بہت بھاتی ہے ۔ ایک زمانے میں ان کے مضامین کی بڑی دھوم ہوا کرتی تھی۔ یہ الگ بات کہ وہ آخر تک لکھتے رہے ، وہ تحریک آزادی ، تقسیم ہند اور بے شمار حوادث کے چشم دید تھے۔ متعدد مواقع پر ملی تحریکات کا حصہ رہے۔ متعدد اخبارات میں ان کے مضامین چھپتے تھے ۔ انھوں نے خود بھی اخبار نکالنے کی سعی کی۔


وہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنو کے عیش باغ واقع اپنی رہائش پر طویل عرصے سے بسترعلالت پر رہنے کے باوجود مضامین کی شکل میں اپنے خیالات دل کی بات عوام تک پہنچاتے رہے یہاں تک ایک وقت میں مختلف اخبارات میں مختلف موضوعات پر اپنی تحریر سے قوم کو پیغام اور نصیحت دینا فرض اولین سمجھتے تھے۔ حفیظ نعمانی صاحب کئی دہائیوں سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے مگر انہوں نے کبھی بھی بیماری کے سامنے خودسپردگی نہیں کی اور توانائی کے ساتھ تصنیف اور تالیف میں مصروف رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے دیگر رسائل اور اخبارات ان کے مضامین پابندی سے شائع کرتے تھے۔

حفیظ نعمانی نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں اور ان گنت بیش بہا مضامین بھی سپرد قلم کئے۔ حفیظ نعمانی کا تعلق سنبھل کے علمی اور دینی خانوادے سے تھا اور انہوں نے خود بھی دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ حفیظ نعمانی متعدد دینی اداروں سے بھی وابستہ رہے اور ان تنظیموں اور اداروں کی انہوں نے رہنمائی کے ساتھ سرپرستی بھی کی۔لا تعداد اور اہم واقعات سے ان کی زندگی بھری پڑی تھی۔ ملک کی آزادی اور اس کے بعد کے پر آشوب دور کا ان کو خاصہ تجربہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کو اپنی بے باکی اور جرأت مندی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور جیل میں بھی کچھ وقت گزارنا پڑا۔


1965 کئی حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہئے۔ ایک تو اسی سال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تھی ۔دوسری اہم بات یہ بھی کہ وزیر اعظم لال بہادرشاستری کے کابینی وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلہ نے کہا تھا کہ ”اگر میں وزیر تعلیم رہ گیا تو مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی غیر مسلم کو مقرر کر وں گا۔ بات صرف اتنی ہی ہوتی تو شاید اس پر زیادہ توجہ نہ دی جاتی مگر چھاگلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ ’ مسلم ‘ نکالنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل(بھی) پیش کروں گا۔

ظاہر ہے کہ چھاگلہ کی یہ باتیں پورے ملک کے مسلمانوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ مسلمانوں میں اشتعال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ ا ±س وقت ملک میں ایک سے ایک سنجیدہ اور باشعور شخص مسلمانوں میں موجود تھے، احتجاج اور ردِ عمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ ا ±س دَور میں اخبار ہی بڑا ہتھیار ہوا کرتے تھے اور اردو صحافی بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود تھے۔


لکھنو سے ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ نے چھاگلہ صاحب کے اس ارادے کے خلاف ایک خصوصی شمارہ ’ مسلم یونیورسٹی نمبر‘ کی اشاعت کا اعلان کیا۔ صرف اس پر توجہ دیں کہ یہ نمبر ابھی شائع نہیں ہوا تھا مگر اس کا شہرہ، اس کی طلب کا یہ عالم تھا کہ ندائے ملت کے دفتر میں روز بروز اس کی مانگ بڑھ رہی تھی۔

مختصر یہ کہ اشاعت سے قبل ہی اس خاص نمبر کی مقبولیت اور اہمیت کے پیش نظر سرکار حرکت میں آگئی اور پھر اس نمبر پر حکم ا ِمتناعی لگا دِیا گیا ۔بہ الفاظ ِدیگر ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی نمبر کی ضبطی کا حکم صادر کر دِیا گیا۔ مگر ندائے ملت کے روح رواں حفیظ نعمانی نے ایک جرات اور پر خطر حکمت علمی اپنائی اور کسی طور اس نمبر کی خاصی تعداد لوگوں تک پہنچا ہی دِی۔ نتیجے میں انہوں نے اپنے دو رفقا کے ساتھ نو ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اس جیل یاترا کی کہانی” رودادِ قفس “ کے نا م سے کتابی شکل میں منظر عام پرآچکی ہے۔


حفیظ نعمانی نے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی کسی سے دھونس نہیں کھائی اور وہی سپرد قلم کیا جس کو وہ خود حق سمجھتے تھے۔آج سے تقریبا12سال قبل مرحوم کی سرپرستی میں مجھے بھی کافی کچھ سیکھنے کوملا جس میں سب سے بڑا سبق یہ تھا کہ حالات اورواقعات سے متاثر ہوئے بغیر اپنی بات رکھنا صحافی کا حق اور ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے ایک صحافی کے لئے ضروری ہے کہ برسراقتدار طبقہ سے خائف ہوئے بغیرعوام کی رہنمائی کو اپنا اولین فریضہ سمجھنا چاہئے۔ حفیظ نعمانی کے انتقال سے بے باک صحافت کو زبردست خسارہ ہوا ہے اور جس نوعیت کی انہوں نے صحافت کی اس کے ایک اہم باب کا خاتمہ ہو گیا۔

حفیظ صاحب کے انتقال سے میرا ذاتی نقصان ہوا ہے۔ وہ بہت عمدہ صحافی تھے انہیں پڑھنے کے بعد کسی اور کو پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میری بدقسمتی تھی کہ لکھنو سے دہلی کے سفر کے بعد ان سے کبھی مل نہیں سکا۔ اللہ انہیں اپنی رحمت میں رکھے اوران کی مغفرت فرمائے۔ آج اردو ایک بڑے صحافی سے محروم ہو گئی۔ ان کے مضامین کا اگر مجموعہ شائع ہو جائے تو آنے والی اردو نسل کے لئے وہ نشان راہ ثابت ہوگا۔ ان کی تحریر اپنے دور کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے جس کی بقا کی ذمہ داری ہماری نسلوں پر واجب ہے۔ اللہ ان کے پسما ندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ نہ صرف اردو صحافت بلکہ مسلم سیاست کا بہت بڑا نقصان ہے. ..اللہ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت فرمائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Dec 2019, 4:11 PM