جدوجہد آزادی کا گمنام ستارہ ’حاجی موسیٰ خاں شروانی‘، برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش... شاہد صدیقی علیگ
حاجی موسی خاں شروانی آخری سانس تک قوم و ملت کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے خود کفیل بنانے اور ہندوستان کی عظیم گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لیے کوشاں رہے۔
حاجی موسیٰ خاں شروانی ایک پہلودار شخصیت کے پیکر تھے، جو بیک وقت حلیم، سخی، مفکر، غریب پرور، بے مثل قلم کار، ہندو-مسلم اتحاد کے علمبردار، علی گڑھ تحریک کے محرک اور جنگ آزادی کے سپاہی تھے۔ ان کی ملک و قوم کے تئیں بے لوث خدمات اور قربانیاں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ حاجی موسیٰ خاں شروانی دتاﺅلی کے معروف شروانی خانوادے کی ایک معزز ہستی حاجی فیض خاں شروانی کے نور چشم تھے، جنہوں نے پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سرزمین حجاز ہجرت کر کے مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ان کے یہاں 2 نومبر 1870ء کو ایک بچے کی ولادت ہوئی، جو اپنے فکر و فن اور بلند کردار کی بدولت درخشندہ ستارہ بن کر چمکے۔ موصوف والد کی وفات کے کچھ عرصے بعد بڑے بھائی حاجی محمد اسماعیل خاں کے ہمراہ آبائی وطن دتاﺅلی واپس آ گئے۔ موسیٰ خاں نے مروجہ دستور کے مطابق موروثی حویلی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور جلد ہی عربی، فارسی اور دینی علوم پر دسترس حاصل کر لی۔ مطالعہ کا شوق انہیں ورثہ میں ملا، جس نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیے۔
سن شعور پہنچنے کے بعد انھوں نے خاندانی روش کی تقلید کی اور مختلف قومی مہمات بشمول علی گڑھ تحریک سے منسلک ہو گئے۔ بیسویں صدی کی عظیم نابغہ روزگار شخصیت سر سید احمد خاں حاجی موسیٰ خاں کی قومی ہمدردانہ رغبت اور جوش و جنون سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس کا تذکرہ انہوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے 10 فروری 1891ء کے شمارے میں خصوصی طور پریوں کیا ہے کہ: ’’موسیٰ خاں رئیس دتاﺅلی جو ایک معزز شروانی پٹھانوں کے خاندان کا ایک سعادت مند نوجوان ہے، گلے میں خلطہ ڈالے ہوئے نمائش گاہ علی گڑھ میں مسلمان غریب طالب علموں کی امداد کے لیے لوگوں سے روپیہ پیسہ جو کوئی جو دے مانگتا پھرتا ہے۔ ہم تو قوم کے لیے اس کو شگون بخشی سمجھتے ہیں۔ اگر ہماری قوم کے رئیسوں اور سرداروں میں اس قسم کا جوش یا خیال قومی ہمدردی کا پیدا ہو جاوے تو پھر قوم کا بیڑا پار ہے۔‘‘
سرسید احمد خاں نے ان کی فراست اور تنظیمی صلاحیتوں کو دیکھ کر دسمبر 1891ء کو مدرستہ العلوم کا ٹرسٹی مامور کیا اور موسیٰ بھی تاحیات سر سید کے مشن پر کاربند رہے۔ تاہم وطن عزیز کو برطانوی استعمار سے آزاد ی دلانے کے لیے بھی متحرک رہے۔ موسیٰ خاں نے 1902ء میں اردو-ہندی مسئلہ پر لکھنؤ میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں شریک ہو کر سیاسی میدان میں پہلا قدم رکھا۔ وہ عبدالمجید خواجہ کی رہنمائی میں ہوم رول لیگ کو منظم کرنے میں سرگرم عمل رہے۔ اس دور کی روایت کے مطابق مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس میں بیک وقت شامل رہے۔ انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کے لیے جی توڑ کاوشیں کیں، جس کے نتیجے میں سنہ 1916ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان سمجھوتا عمل میں آیا، لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر کانگریس اور تحریک خلافت میں ہمہ تن منہمک ہو گئے۔ حاجی موسیٰ خاں وقت کے بہاﺅ اور سیاسی لہروں کے مزاج شناس تھے جنہوں نے مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کر کے نیم جان قوم میں نئی روح پھونکنے کی مساعی جمیلہ کی، جس کی گواہی علی گڑھ منتھلی، البشر اٹاوہ اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ان کے مضامین دیتے ہیں۔
اسی اثنا میں اے ایم یو انتظامیہ کی حریت پسند طلباء کی انقلابی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی کوششیں زور پکڑنے لگیں۔ جس کے پیش نظر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا خاکہ تیار ہوا جس کی پہلی میٹنگ حاجی موسیٰ کی کوٹھی ’مشرف منزل‘ پر منعقد ہوئی اور وہ چند عرصے تک عارضی معتمد رہے۔ 1920ء میں گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے تحریک ترک موالات اور سودیشی مہم چھیڑی تو انہیں کامیاب بنانے کے لیے موسیٰ خاں نے اپنی پوری توانائی جھونک دی۔ بیرونی کپڑوں اور دیگر ایشا کا مکمل بائیکاٹ کر کے کھادی آویزاں کر لی۔ ان کی کوٹھی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل ہو گئی، جہاں ملک کے قد آور رہنماﺅں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا، لیکن حاجی موسیٰ خاں آزادی کا طلوع سورج دیکھنے کی تمنا دل میں لیے 18 اپریل 1944ء مطابق 24 ربیع الثانی 1343ھ کو چل بسے۔
حاجی موسی خاں شروانی آخری سانس تک قوم و ملت کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے خود کفیل بنانے اور ہندوستان کی عظیم گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لیے کوشاں رہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے تصانیف کا جو ذخیرہ چھوڑا وہ قوم و ملک کے لیے کسی اثاثہ سے کم نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔