بدعنوانی کا جال: مختلف محکمے، ایک جیسے گھپلے...ہرجندر

سی اے جی کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پی ایم کے وی وائی سمیت کئی مرکزی اسکیموں میں ایک جیسے گھپلے ہو رہے ہیں، غلط اکاؤنٹس، فرضی تفصیلات اور ادھوری ادائیگیاں، جو نظامی بدعنوانی کی نشاندہی کرتی ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

ہرجندر

نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران راہل گاندھی نے ہریانہ اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کی چوری کے لیے اختیار کیے گئے طریقوں کی تفصیل بیان کی تھی۔ اس وقت اسے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ایک بڑی گڑبڑی کے طور پر دیکھا گیا۔ مگر اس وقت شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ جس نوعیت کی گڑبڑی الیکشن کمیشن میں سامنے آئی، اسی طرز کی بدعنوانی حکومت کے کئی محکموں میں کھلے عام جاری ہے۔

حال ہی میں انڈین ایکسپریس نے ہنرمندی کو فروغ دینے والی ’پردھان منتری کوشک وکاس یوجنا‘ (پی ایم کے وی وائی) میں ہونے والے گھپلے پر ایک رپورٹ شائع کی، تو سب سے پہلے راہل گاندھی کی وہی پریس کانفرنس ذہن میں تازہ ہو گئی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ اخبار کی اپنی تفتیش نہیں بلکہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل یعنی سی اے جی کی اُس رپورٹ کا حصہ ہے جو حال ہی میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی۔

راہل گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کس طرح ہریانہ میں برازیل کی ایک ماڈل کی تصویر ووٹر لسٹ میں 223 مختلف ووٹروں کے لیے استعمال کی گئی۔ اگرچہ پی ایم کے وی وائی نے ابھی اتنی ’مہارت‘ حاصل نہیں کی کہ برازیل سے کسی ماڈل کو درآمد کرے، مگر ایک ہی تصویر کو متعدد مستفیدین کے لیے استعمال کرنے کی روایت اس اسکیم میں بھی دہرائی گئی۔

الیکشن کمیشن نے متعدد ووٹروں کے پتوں میں مکان نمبر ’00‘ درج کر دیا تھا۔ اسی طرز پر اس اسکیم میں بھی کئی مستفیدین کے بینک اکاؤنٹ نمبرز محض ’11111111111‘ درج کیے گئے۔ جہاں کچھ زیادہ محنت کی گئی، وہاں ’1234567…‘ جیسے نمبرز درج ہیں۔ کئی مقامات پر اکاؤنٹ نمبر صرف ایک ہندسے پر مشتمل ہیں۔ مجموعی طور پر 12,122 ایسے اکاؤنٹ نمبرز پائے گئے جو 52,381 مستفیدین کے ناموں کے ساتھ منسلک ہیں۔


سی اے جی کی جانچ میں یہ بات سامنے آئی کہ پی ایم کے وی وائی 2.0 اور 3.0 کے 94.53 فیصد مستفیدین ایسے ہیں جن کے اکاؤنٹ نمبرز سرے سے درج ہی نہیں کیے گئے۔ کہیں صفر لکھا گیا ہے اور کہیں ’دستیاب نہیں‘۔

اس اسکیم کے تحت مختلف کورسز مکمل کرنے پر مستفیدین کو 2,200 روپے سے لے کر 12,000 روپے تک دیے جاتے ہیں، جس کا اوسط تقریباً 8,000 روپے فی کس بنتا ہے۔ 14,450 کروڑ روپے کے بجٹ والی اس اسکیم کا مقصد 1.31 کروڑ نوجوانوں کو ہنرمند بنانا تھا، جن میں سے اب تک 1.1 کروڑ کو سرٹیفکیٹ دیے جا چکے ہیں۔ مگر سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق 34 لاکھ مستفیدین کو اب تک رقم ہی نہیں ملی۔

یہ جاننے کے لیے کہ آیا واقعی رقم ادا کی گئی یا نہیں، سی اے جی نے مستفیدین کو ای میلز بھیجیں، مگر 36.51 فیصد ای میلز ڈیلیور ہی نہیں ہو سکیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یا تو ای میل پتے غلط تھے یا جان بوجھ کر غلط درج کیے گئے۔ کئی جگہ ایک ہی ای میل ایڈریس متعدد مستفیدین کے نام پر درج ہے، جبکہ بعض معاملات میں مستفیدین کے بجائے تربیتی شراکت داروں کے ای میل پتے درج کیے گئے۔

جانچ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ کئی ایسے مراکز کے نام پر بھی رقم جاری کر دی گئی جو پہلے ہی بند ہو چکے تھے۔ وزارت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ تمام مستفیدین کو ادائیگی ہو چکی ہے۔ اس بات کا کوئی قابلِ اعتماد ڈیٹا بھی دستیاب نہیں کہ کورس مکمل کرنے والوں میں سے کتنے نوجوانوں کو روزگار ملا۔


یہ مسئلہ صرف ایک اسکیم تک محدود نہیں۔ مرکزی حکومت کی کئی دیگر اسکیموں میں بھی اسی طرز کا پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ آیوشمان بھارت اور پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا سے متعلق سی اے جی کی رپورٹ میں بھی سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مثال کے طور پر، جن مریضوں کی موت ہو چکی تھی، ان کے نام پر جاری رقم اور درج شدہ اموات کے اعداد و شمار میں بڑا فرق پایا گیا۔ اس اسکیم میں 7,49,820 ایسے معاملات سامنے آئے جن میں موبائل نمبرز غلط درج تھے، اور کئی جگہ ’9999999999‘ جیسا نمبر استعمال کیا گیا۔ غلط نام، ناممکن تاریخِ پیدائش اور دیگر متعدد خامیاں بھی ریکارڈ میں پائی گئیں۔

سوبھاگیہ، دین دیال اُپادھیائے گرام جیوتی یوجنا اور پردھان منتری آواس یوجنا جیسی کئی اسکیمیں بھی ایسی ہیں جہاں سی اے جی نے اسی نوعیت کے گھپلوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

نومبر کی پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے یہ بھی بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ڈی-ڈوپلیکیشن سافٹ ویئر موجود ہے، جس کے ذریعے ایک ہی تصویر، ایک ہی پتہ یا ایک ہی ’ای پی آئی سی‘ نمبر کے بار بار استعمال کو آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے مگر اس کا استعمال نہیں کیا جا رہا۔ یہ معلوم نہیں کہ ہنرمندی ترقی کی وزارت کے پاس ایسا کوئی سافٹ ویئر ہے یا نہیں لیکن یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ مختلف محکموں میں ایک ہی طرح کی بدعنوانی کسی مشترکہ ’نقل‘ کے تحت ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب محض اتفاق ہے، یا ان سب کے تار کسی ایک ہی جگہ سے جڑے ہوئے ہیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔