بی جے پی حکومت میں تاریخ کے جھوٹ فریب کا نیا سلسلہ... حسنین نقوی

محمود کو بنیادی طور پر ایک مذہب پھیلانے والے ’قصاب‘ کے طور پر پیش کر کے این سی ای آر ٹی نوآبادیاتی رنجشوں کی بازگشت پیدا کرتا ہے، جنہیں روملیا تھاپر ’فرقہ وارانہ ہٹ دھرمی‘ کے طور پر نشان زد کرتی ہیں۔

سوشل میڈیا
i
user

حسنین نقوی

ہندوستانی تاریخ وسطیٰ کے ازسرِنو تحریر کے لیے بی جے پی-آر ایس ایس کی مہم نے این سی ای آر ٹی کی درسی کتابوں کو ایک نظریاتی میدانِ جنگ بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ اس کا تازہ نشانہ محمود غزنوی ہے، جس کے ’حملے‘ خاصہ زیر بحث رہے ہیں، اور اس کا پہلا شکار حال ہی میں شائع ہونے والی ساتویں جماعت کی این سی ای آر ٹی سماجی علوم کی درسی کتاب ’سماج کا مطالعہ، ہندوستان اور اس سے آگے‘ (ایکسپلورنگ سوسائٹی، انڈیا اینڈ بیونڈ) بنی ہے۔

تاریخ کے ’تاریک دور‘ پر ایک انتباہی تمہید کے ساتھ شروع ہونے والی یہ کتاب مذکورہ حملوں کی تفصیل سے بحث کرتی ہے، جس میں محمود غزنوی کو بنیادی طور پر ایک شدت پسند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں محمود ایک بے رحم بت شکن کے طور پر سامنے آتا ہے جو ’اسلام کے اپنے نسخہ کو دنیا کے غیر مسلم حصوں میں پھیلانے‘ کے لیے پرعزم ہے۔ العتبی اور البیرونی جیسے درباری مؤرخین کے حوالوں سے یہ از سر مطالعہ محمود کے مبینہ طور پر ’کافروں‘ کے قتلِ عام اور مندروں، بالخصوص سومناتھ مندر پر حملہ کرنے کے جنون کو ابھارتا ہے۔


یہ اسی این سی ای آر ٹی (قومی تعلیمی تحقیق و تربیت کونسل) کی کتاب کے سابقہ ایڈیشن میں کیے گئے ایک ڈرامائی تغیر کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں محمود کو ایک مختصر پیراگراف میں جگہ دی گئی تھی (یاد رہے کہ یہ ساتویں جماعت کی درسی کتاب ہے)، جس میں بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعے برصغیر میں کیے گئے 17 حملوں کا اصل مقصد یہاں کے مندروں کو لوٹنا تھا۔

ناگوار تاریخ کا سامنا کرنا تعلیمی علوم میں ایک جائز تعلیمی مقصد رہا ہے۔ لیکن یہ منصوبہ تعلیمی نہیں بلکہ خالصتاً سیاسی ہے، جس کا مقصد اُن اندرونی محرکات کی پیچیدگی کو ہندو-مسلم منافرت میں سمیٹ دینا ہے، جسے ہماری سنجیدہ تاریخ نویسی کی روایت طویل عرصے سے رد کرتی آئی ہے۔ محمد حبیب، ستیش چندر اور رومیلا تھاپر جیسے ممتاز دانشور بارہا یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ محمود کے حملوں کے پیچھے مذہبی وابستگی سے کہیں زیادہ ایک غیر مستحکم وسطی ایشیائی سلطنت کو برقرار رکھنے کی مالی مجبوری کارفرما تھی۔

---


ان تمام نئی ترامیم کو شامل کرتے ہوئے اور حملوں کے مختلف اسباب کو نمایاں کرتے ہوئے، درسی کتاب اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتی ہے کہ مندروں میں لوٹ مار اور انہیں ’ناپاک‘ کرنے کی وجہ ہمیشہ مذہبی نہیں رہی ہے، اور یہ روایت وسطی ایشیا سے ترکوں کی آمد سے بہت پہلے سے جاری تھی۔

ابتدائی عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان میں، مندر محض مذہبی مراکز ہی نہیں تھے بلکہ شاہی خزانے، اراضی عطیات اور سیاسی جواز کی علامت بھی ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے یہ بین سلطنتی جنگوں کا اہم نشانہ بنتے رہے۔ کلہن کی ’راج ترنگنی‘ میں بھی درج ہے کہ کشمیر کے ہرش دیو (گیارہویں صدی) نے شاہی خزانہ بھرنے کے لیے کس طرح سوچے سمجھے طریقے سے مندروں کو منہدم کیا اور ان کی مورتیوں کو پگھلا دیا۔ ہندو حکمراں ہرش دیو نے ’دیوت پتن نائک‘ (دیوتاؤں کو جڑ سے اکھاڑنے/ نابود کرنے والا نائک/افسر) نامی ایک خصوصی عہدے دار کی تقرری کسی مذہبی شدت پسندی کے باعث نہیں، بلکہ اپنی سیاسی مضبوطی اور مالی بحران کے وقت دولت کے حصول میں رکاوٹ نہ آئے، اس لیے کی تھی۔


جزیرہ نما ہندوستان کے بارے میں بھی اسی نوع کے دلائل دیے جاتے رہے ہیں۔ گیارہویں صدی میں بنگال اور جنوب مشرقی ایشیا تک اپنی بحری مہمات کے ذریعے پہنچنے والے معروف راجندر چول اول کے بارے میں یہ معلوم حقیقت ہے کہ وہ شکست خوردہ ریاستوں سے مندروں کے خزانوں سمیت بے پناہ دولت کس طرح ساتھ لے گئے۔ مقدس مورتیوں اور رسوماتی املاک پر قبضے کو کتبوں میں شاہی فتح کی علامت کے طور پر بڑے فخر سے درج کیا گیا ہے۔

ابتدائی اور عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف حصوں میں، ’راشٹرکوٹوں‘ سے لے کر ’چالوکیوں‘ تک، حکمراں حریف مندروں پر اس لیے حملہ آور ہوئے کہ مندر خود مختاری کی علامت تھے، نہ کہ اس لیے کہ حملہ آوروں کا مذہب بت شکنی کا تقاضا کرتا تھا۔ یہ حقائق اس رجحان کی واضح نشان دہی کرتے ہیں کہ حکمراں کس طرح اپنی اقتدار سازی اور دولت کی لوٹ مار کے لیے بار بار مقدس عبادت گاہوں پر دست درازی کرتے رہے۔


اس نوعیت کی شناخت اور اس پیچیدگی کو سمجھنا محمود کو تشدد سے بری کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے حملوں کو درست تاریخی تناظر میں رکھتا ہے اور اس غلط فہمی کو دور کرتا ہے کہ لوٹ مار کی سیاسی ثقافت کسی بھی طور ایک مخصوص اسلامی بگاڑ تھی۔

---

1001 سے 1027 عیسوی کے درمیان محمود کی 17 مہمات کی ڈرامائی تفصیل بیان کرتے ہوئے، جن کا اختتام سومناتھ کی لوٹ مار پر ہوا، اس درسی کتاب میں العتبی کے ذریعے مندر کی مسماری پر فتح مندانہ بیانات اور البیرونی کی طرف سے ٹوٹے ہوئے شیو لنگ کو غزنی لے جانے کی رپورٹ کو ترجیح دی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی رودادیں درباری سامعین کے لیے لکھی گئی تھیں اور ان میں خاصی صنعت بیان کے ساتھ تفصیلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔


رومیلا تھاپر اپنی کتاب ’سومناتھ: دی مینی وائسز آف اے ہسٹری‘ (2004) میں لکھتی ہیں کہ ان تاریخوں میں جہاد کی بیان بازی عموماً مبالغہ آمیز اور پروپیگنڈا پر مبنی تھی، جسے عباسی خلافت میں محمود کی حیثیت مضبوط کرنے اور ملک کے اندر اس کی حکمرانی کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ فارسی، سنسکرت اور جین مصادر کا حوالہ دیتے ہوئے، تھاپر یہ دکھاتی ہیں کہ مندروں پر حملے مذہبی اہداف کے طور پر نہیں، بلکہ سیاسی اقتدار اور دولت کے ارتکاز کی علامتوں کے طور پر کیے گئے تھے۔ سومناتھ شیو بھکتی کے ساتھ ساتھ چالوکی خود مختاری کی بھی علامت تھا۔ اس کی تباہی ایک منصوبہ بند جغرافیائی سیاسی حملہ تھا، نہ کہ کوئی تہذیبی جنگ۔

تھاپر مزید بتاتی ہیں کہ سومناتھ پر معاصر ہندوستانی رد عمل نمایاں طور پر دبے ہوئے تھے۔ ایک تباہ کن ہندو-مسلم تقسیم کا تصور بہت بعد میں ابھرا، جسے نوآبادیاتی تاریخ نویسی کے ذریعے شکل دی گئی، جو ہندوستانی تاریخ کو مذہبی تصادم کی ایک مسلسل داستان کے طور پر پیش کرنے پر آمادہ تھی۔


محمد حبیب کی کتاب ’سلطان محمود آف غزنی‘ (1951) محمود کو ایک سخت گیر مذہبی شخصیت کے طور پر پیش کرنے والے تصور کو پوری طرح رد کرتی ہے۔ حبیب کے مطابق اسلام نہ تو اندھا دھند لوٹ مار اور نہ ہی توڑ پھوڑ کی تائید کرتا ہے، اور محمود میں بعد کے حکمرانوں جیسی مذہبی شدت پسندی کا بھی فقدان تھا۔ محمود کی سب سے بڑی تشویش اپنی فوج کو مالی وسائل فراہم کرنا، ترک سرداروں کو راضی رکھنا اور وسطی ایشیائی حریفوں سے اپنی سلطنت کا دفاع کرنا تھی۔ نگرکوٹ سے قنوج تک لوٹی گئی دولت کی جو تفصیل حبیب دیتے ہیں، وہ دکھاتی ہے کہ ہندوستانی دولت کس طرح غزنی کی یادگاروں اور عسکری قوت کا سہارا بنی۔ سکہ شناسی کے شواہد غزنی کی ٹکسالوں میں ہندوستانی سونے کے رواج کی تصدیق کرتے ہیں۔

ستیش چندر اپنی کتاب ’مغربی ہندوستان: سلطنت سے مغلوں تک‘ میں متوازن تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ محمود کی مہمات میں لوٹ مار اور سیاسی مظاہرہ دونوں شامل تھے، لیکن ان میں معاشی پہلو ہمیشہ غالب رہے۔ محمد غوری کے برعکس محمود نے نہ تو کبھی ہندوستان میں مستقل حکومت کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی اسے قائم کیا۔ محمود کی مہمات منصوبہ بندی کے ساتھ زیادہ تر انہی سیاسی طور پر منقسم علاقوں میں ہوئیں، جہاں قلعوں اور خزانوں کی طرح مندر بھی وسائل کے حصول کا آسان ذریعہ نظر آتے تھے۔


درحقیقت ایسی اہم مداخلتیں این سی ای آر ٹی کی جانب سے العتبی اور البیرونی پر سوچے سمجھے انحصار کے خطرات کو بے نقاب کرتی ہیں۔ العتبی نے اپنے سرپرست کی مدح سرائی کے لیے ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی اور البیرونی (ہندوستانی علم کے لیے اپنی قدر دانی کے باوجود) غزنوی سرپرستی سے باہر نہ نکل سکے۔ درسی کتاب میں ’ایک لنگ مہاتمیہ‘ (جسے ’ایک لنگ پُران‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) جیسی مخالف آوازیں غائب ہیں، جہاں سومناتھ کے سقوط پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے روحانی کے بجائے معاشی زاویے سے دیکھا گیا ہے۔ محمود کو بنیادی طور پر ایک مذہب پھیلانے والے ’قصاب‘ کے طور پر پیش کر کے این سی ای آر ٹی نوآبادیاتی رنجشوں کی بازگشت پیدا کرتا ہے، جنہیں روملیا تھاپر ’فرقہ وارانہ ہٹ دھرمی‘ کے طور پر نشان زد کرتی ہیں۔

---

این سی ای آر ٹی کی درسی کتابوں میں واضح طور پر لکھا جاتا رہا ہے کہ مندروں کو اس لیے نشانہ بنایا گیا، کیونکہ حکمرانوں نے انہیں خود مختاری کی علامت کے طور پر قائم کیا تھا۔ ثانوی درجے کی درسی کتابوں میں اس تاریخ کو دانستہ مسخ کر کے پیش کرنا نوجوان ذہنوں پر ایک تنگ نظر شدت پسندانہ عالمی تصور مسلط کرنا ہے۔ یہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ چولوں سے لے کر راشٹرکوٹوں تک تمام ہندوستانی نظامِ حکومت کی سیاسی ساخت یکساں تھی، جہاں جنگ کا بنیادی مقصد مذہبی تبدیلی نہیں بلکہ دولت کا استحصال تھا۔


تاریخ کی اس طرح کی سیاست سے محرک از سر نو تحریر طلبا کو عہد وسطیٰ کے ماضی کو سیاسی معیشتوں کے تصادم کے بجائے عقائد کے مسلسل ٹکراؤ کے طور پر دیکھنا سکھائے گی۔ صدیوں سے حکمرانوں کی جانب سے وسائل کے استحصال کو الٰہی منظوری، تہذیبی فریضہ، قومی سلامتی اور اسی طرح کی اخلاقی اصطلاحات کی ملمع کاری میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا۔

تاریخ پڑھانا نہ تو تشدد کو جائز ٹھہرانا سکھاتا ہے اور نہ ہی سیاسی مقاصد کے لیے یادداشت کے غلط استعمال کو۔ یہ مصادر سیاق و سباق اور پیچیدگیوں کے ساتھ تنقیدی وابستگی پیدا کرنا سکھاتا ہے۔ ایک متوازن تعلیمی طریقہ کار تنوع کو فروغ دیتا ہے، فتح مندانہ بیانیوں کے بارے میں شکوک کو تقویت دیتا ہے اور واقعات کو وسیع تر سیاسی و معاشی ڈھانچوں میں رکھتا ہے۔ ایسا زاویہ طلبا کو موروثی ناراضی کے بجائے تاریخی خواندگی سے لیس کرتا ہے، جو تاریخ کے نصاب کا سب سے پائیدار تحفہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔