عدالت صاف لفظوں میں کہے کہ اختلاف رائے غداری نہیں...سنجے ہیگڑے

پروفیسر علی خان کی فیس بک پوسٹ پر غداری کا الزام جمہوریت کے زوال کا اشارہ ہے۔ عدالت کو واضح طور پر کہنا چاہیے کہ اختلاف رائے حب الوطنی کا حصہ ہے، جرم نہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

سنجے ہیگڑے

ہم ایک ایسے جمہوری ملک میں رہتے ہیں جو کبھی اپنے سوچنے والے شہریوں اور بے باک مکالمے پر فخر کیا کرتا تھا لیکن اب ہم ایک ایسے ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر بات کو دلیل سے نہیں بلکہ نظریاتی چشمے سے پرکھا جاتا ہے۔ پروفیسر علی خان محمود آباد کا معاملہ صرف ضمانت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس ہوا کا معاملہ ہے جس میں ہم بطور شہری سانس لیتے ہیں اور یہ بغیر کسی خوف کے سوچنے، لکھنے اور بولنے کے حق سے متعلق ہے۔

پروفیسر کو ضمانت دیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں، قانونی طور پر راحت کے باوجود، کئی خطرناک اشارے موجود ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ خیالات کو بھی اب شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ شہری کے تنقید، تجزیہ اور غور و فکر کے حق کو تسلیم کرنے کے بجائے، عدالت نے جیسے خبردار کیا کہ بولنے سے پہلے سوچو، کہیں غلط نہ سمجھ لیے جاؤ!

تو پروفیسر نے آخر ایسا کیا لکھ دیا تھا؟

انہوں نے ایک فیس بک پوسٹ لکھی تھی—محتاط، متوازن اور فکری گہرائی لیے ہوئے۔ اس میں ہندوستان-پاکستان تعلقات کی پیچیدگیوں، جنگ کی فطرت، تشدد کی بے معنویت اور زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے عسکری جوش کا جشن منانے کی منافقت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے دہشت گردی کی مذمت کی، پاکستانی فوج کی پالیسیوں پر تنقید کی اور انسانیت و ضبط نفس کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امن ایک مشکل عمل ہے، جو ٹی وی اسٹوڈیوز کی چیخ و پکار یا سوشل میڈیا کے شور سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

اور اس پر ان پر غداری اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے الزامات لگا دیے گئے۔ کہا گیا کہ ریاست کو ایسے تخریبی عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ کہ کچھ باتیں نہیں کہنی چاہییں۔ کہ قومی سلامتی کے نام پر اختلاف کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔

لیکن یہ سوچ اس آئینی جمہوریت کی دشمن ہے جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سوچ میں شہری ایسے بچے تصور کیے جاتے ہیں جو پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل نہیں۔ انہیں صرف سرکاری بیانیہ ہی قبول کرنا چاہیے اور اسی لیے ریاست کی تنقید کو بغاوت سمجھا جانے لگا ہے۔


ہریانہ خواتین کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیا نے خود کو حب الوطنی کی نگہبان بنا لیا۔ انہوں نے زور و شور سے شکایت کی کہ پروفیسر کی پوسٹ قومی جذبات کو مجروح کرتی ہے۔ ان کے فکری جملے انہیں قوم کی توہین لگے—ایک ایسی قوم جسے ان کے خیال میں صرف نعرے بازی اور اندھی وفاداری سے ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

یہی اصل مسئلہ ہے۔ ہندوستان کا آئین اطاعت نہیں، بلکہ شرکت کا حامی ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی کو ضمانت دیتا ہے، نہ صرف اکثریت کے لیے بلکہ اختلاف رائے کے لیے بھی۔ اس آزادی میں افواج، لیڈران اور پالیسیوں پر تنقید کی اجازت بھی شامل ہے، خاص طور پر جب تنقید کا مقصد امن و انصاف ہو، تعصب یا نفرت نہیں۔

سپریم کورٹ صرف قانون کی عدالت نہیں بلکہ آزادی کا آخری قلعہ ہے۔ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہے، خاص طور پر جب اکثریتی سوچ غالب آنے لگے۔ مگر اس کیس میں عدالت کی آواز آزادی کے حق میں اتنی بلند نہیں تھی جتنی ہونی چاہیے تھی۔

عدالت نے ضمانت دیتے وقت یہ کہہ کر کہ بیان ’مشکوک‘ تھا، ایک خاموش لیکن مضبوط پیغام دے دیا کہ بولنے سے پہلے احتیاط برتو، جذبات میں نہ بہو، زاویہ نظر نہ بدلو، خاص کر اگر آپ مسلمان ہیں تو لفظوں کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کرو۔

اور اس لیے، بھاٹیا جیسی شخصیات کو حوصلہ ملتا ہے۔ وہ خود کو کسی سنسر کے طور پر نہیں بلکہ قومی پاکیزگی کی محافظہ کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ہر بار جب وہ کسی کو سزا دینے کی مانگ کریں گی جو ان کی تعریف کردہ حب الوطنی کے سانچے میں نہ آئے، تو انہیں یقین ہوگا کہ عدالت کم از کم انہیں روکے گی بھی نہیں۔


ریاست کو ان کیسز میں جیتنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے صرف ڈرانا ہوتا ہے۔ عدالتی کارروائی کی طوالت، عزت پر حملے، ساتھیوں کا پیچھے ہٹ جانا—یہ سب مل کر اس حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جسے ’خاموشی‘ کہتے ہیں۔

لیکن پروفیسر نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے ‘بھکت بریگیڈ’ اتنی تڑپ اٹھی؟

انہوں نے لکھا، ’’شہری جانوں کا نقصان دونوں طرف افسوسناک ہے اور اسی لیے جنگ سے بچنا چاہیے... غرباء کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور فائدہ صرف سیاستدانوں و اسلحہ کمپنیوں کو ہوتا ہے... سیاسی تنازعات کا حل فوجی طریقے سے کبھی ممکن نہیں رہا۔‘‘

یہ جہاد نہیں، بلکہ گاندھی جی کا حقیقت پسندانہ وژن ہے۔ یہ امبیڈکر کی اختلافی بصیرت ہے۔ یہ وہی دانش ہے جس نے جواہر لال نہرو کو قید میں ’ڈسکوری آف انڈیا‘ لکھنے پر اکسایا۔ یہ کوئی فیس بک کا شریر تبصرہ نہیں ہے۔ پروفیسر نے اپنی پوسٹ کا اختتام بھی ’جے ہند‘ سے کیا—ریاکاری کے طور پر نہیں، بلکہ ایمان کی گہرائی سے۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پروفیسر غلط ہیں؛ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صحیح ہو سکتے ہیں اور ان کی بات دوسروں کو سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ آج یہی سوچ خطرہ بن چکی ہے۔

یاد رکھیے کہ امریکہ کے مکارتھی دور میں بھی لوگوں کو جرم نہیں بلکہ خیالات کی بنیاد پر کمیٹیوں کے سامنے لایا جاتا تھا۔ دوستیاں، کتابیں، انکار، سب مشکوک بن گئے تھے۔ ہم اس کا مقامی ورژن بنا رہے ہیں، جہاں فیس بک کے ججز اور ایف آئی آر پر نازاں افسران موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی عظمت جھکنے میں نہیں، مزاحمت میں رہی ہے۔ ایمرجنسی میں اس کا جھکنا ناکامی تھی لیکن جب اس نے ’پرائیویسی‘ کو بنیادی حق مانا، ’سکال پیپرز‘ اور ’بینیٹ کولمین‘ میں اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا، تو کامیابی اس کا مقدر بنی۔ تب اس نے شہریوں پر اعتماد کیا، آئین پر اعتماد کیا۔ آج وہ اعتماد ماند ہوتا جا رہا ہے۔


پروفیسر علی خان کو کبھی ضمانت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ انہیں تو اس یاد دہانی کے لیے سراہا جانا چاہیے تھا کہ جنگ ویڈیو گیم نہیں اور ہمارے بہترین فرشتے وردی یا جھنڈے میں نہیں، بلکہ ہمارے سوچنے، سوال اٹھانے اور ہمدردی رکھنے کی صلاحیت میں بستے ہیں۔

اس کے برعکس، ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ایک استاد کی فیس بک پوسٹ غداری تصور ہوتی ہے، مگر نفرت انگیز تقاریر، ماب لنچنگ اور گھروں کو مسمار کرنے جیسے افعال کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

ہمیں یہ نظیریں قائم نہیں رہنے دینی چاہئیں۔ اصل نقصان پوسٹ سے نہیں، بلکہ اس فضا کے سکڑنے سے ہو رہا ہے جس میں ایسی پوسٹ لکھی جا سکتی ہے۔ عدالت کو صرف ضمانت نہیں، اظہار رائے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسے غیر واضح نہیں، بلکہ واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ حب الوطنی میں اختلاف شامل ہے اور اختلاف رائے، غداری نہیں۔

ورنہ ہم خود کو آئین کے بجائے غصے سے چلتا ملک پائیں گے—جہاں خیال ہی جرم بن جائے گا۔

جے ہند!

(مضمون نگار سنجے ہیگڑے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔