ہمیشہ انسانیت کے حق میں ہوتی ہے جنگ بندی...اشوک واجپئی
جنگ بندی انسانیت کے حق میں ایک مثبت قدم ہے۔ جنگ سے نہ صرف جانی و مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ خوبصورتی، معصومیت اور بھائی چارہ بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ دعا اور امن کی راہ ہی واحد راستہ ہے

جنگ کے بعد کا منظر / اے آئی
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ اس کا اعلان ان دونوں ملکوں نے نہیں بلکہ امریکہ نے کیا۔ ہم دونوں جانب ممکنہ تباہی اور بربادی سے بچ گئے۔ بے شمار بے گناہ لوگ مرنے سے بچا لیے گئے، اس لیے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ کہا جا رہا ہے، جنگ بندی ہمیشہ انسانیت کے حق میں ہوتی ہے۔
اب جو مختصر جنگ ہوئی، اس کا نفع و نقصان گنا جانے لگا ہے۔ ہندوستان نے اپنے کچھ شہریوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا بدلہ پاکستان کے کچھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور تربیتی کیمپوں پر حملہ کر کے لے لیا۔ دشمن کو مٹی میں ملا دینے اور گھس کر مارنے کی حد بھی سامنے آ گئی۔ ہم پاکستان کے اندر تک گئے تو وہ بھی ہمارے جموں تک آ پہنچا۔ کچھ ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی آزمائش ہو گئی۔ شاید یہ سمجھ میں آ گیا ہو کہ ہم دونوں ملک اپنا پڑوس نہ تو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی کسی جنون میں ایک دوسرے کو تباہ کر سکتے ہیں۔
’گودی میڈیا‘ نے جنون کو ہوا دینے، مبالغہ آرائی کرنے، حقائق کے برخلاف مختلف جھوٹ گھڑنے اور انہیں پھیلانے میں اپنی بے شرم حکومت نوازی کا نیا اور پست معیار قائم کیا۔ خود حکومت کی جانب سے نسبتاً شائستہ اور مہذب زبان میں تفصیلات دی جاتی رہیں۔ گودی میڈیا کی زیادتی پر کسی کارروائی کی امید نہیں لیکن ایسی کارروائی قانونی طریقے سے ضرور ہونی چاہیے۔
اتنے مختصر عرصے میں چلنے والی اس جنگ میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا، اس کا کوئی مستند اندازہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ موجودہ دنیا کم از کم دو طویل جنگیں خاموشی سے دیکھ چکی ہے۔ اگر اس دنیا میں ہماری اس جنگ پر کوئی خاص ردِعمل نہیں ہوا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
البتہ یہ نوٹ کیا جانا چاہیے کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ ہمیں نصیحت، صبر و تحمل کی تلقین کی گئی اور یہ بھی مانا گیا کہ ہندوستان کو اپنے اوپر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا مناسب جواب دینے کا حق حاصل ہے۔ ہمارے دوسرے پڑوسی ممالک میں سے کسی نے بھی ہمارے حق میں کچھ نہیں کہا۔
یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ دنیا میں جنگوں کا تعلق صرف اخلاقی یا تزویراتی اہداف سے نہیں ہوتا۔ مغرب کے کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ، چاہتے ہیں کہ جنگیں جاری رہیں تاکہ وہ لڑنے والے ملکوں کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کر سکیں۔ آج ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو تاریخ کی سب سے زیادہ اسلحہ بند دنیا ہے۔ جنگیں ویسے بھی مہنگی ہوتی ہیں اور ان کا بوجھ ملک کی معیشت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہندوستانی معیشت پر اس جنگ کا کتنا بوجھ پڑنے والا ہے۔ جنگ بندی کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ شاید یہ بوجھ بڑھنے سے رک جائے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں امن، تخفیفِ اسلحہ وغیرہ کے حق میں جو تحریکیں چلی تھیں، آج شاید کسی کو یاد بھی نہیں رہیں لیکن آج انسانیت کو بچانے کے لیے، اس کی وسعت و امکانات کو تسلیم کرنے کے لیے ایسی تحریک کو پوری شدت سے دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی ٹیکنالوجی اسے عالمی سطح پر لے جانے کی اہل ہے۔
کسی بھی ملک کے عوام، ہندوستان اور پاکستان کے عوام بھی، جنگ نہیں چاہتے اور اسی وسیع شہریت کو ہی امن کے لیے سرگرم اور پرعزم ہونا پڑے گا۔ فی الحال بہت دھند ہے، اس لیے ایسی کسی کوشش کی آہٹ بھی نظر نہیں آتی لیکن ایسی کوشش ضرور ہوگی، ہمارے یہاں بھی اور ہمارے پڑوس میں بھی۔
ایک جنگی نظم
پچیس برس سے کچھ زیادہ وقت گزر چکا ہے، جب کرگل جنگ ہوئی تھی۔ اس وقت اس جنگ کی حمایت اور ستائش میں کچھ کلاسیکی فنکاروں نے نئی دہلی کے ایک ہال میں ایک ثقافتی شام کا انعقاد کیا تھا۔ مجھے بطور شاعر اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
میں نے وہاں 'اپنے ساڑھے چھے مہینے کے پوتے کے لیے ایک جنگی نظم' سنائی تھی، جو میرے مجموعہ 'سمے کے پاس سمے' (راج کمل، 2000) میں شامل ہے۔ اس کے آخری دو بند درج ذیل ہیں:
حوصلہ ایک مقدس لفظ ہے
قربانی ایک مقدس لفظ ہے
مزاحمت ایک مقدس لفظ ہے
لیکن جنگ کو مقدس کہنا ممکن نہیں،
چاہے وہ ہم پر تھوپی ہی کیوں نہ گئی ہو۔
جنگ کے ساتھ چلی آتی ہے موت،
چاہے جنگ کے بعد،
اس کی تباہی و بربادی کے بعد
دنیا میں بچتی ہے صرف زندگی، موت نہیں۔
شہادت کو یاد کرنے اور اکثر بھول جانے والی
بس زندگی ہی بچتی ہے،
میرے لاڈلے،
جنگ کے بعد۔
پھر بھی، جنگ کبھی مقدس نہیں ہوتی۔
ہر جنگ کے ساتھ کچھ خوبصورت اور مقدس تباہ ہوتا ہے۔
جنگ اکثر ہوتی ہے بھائیوں اور پڑوسیوں کے بیچ،
ہم سے لڑنے کہیں اور سے دشمن نہیں، بھائی اور پڑوسی ہی آتے ہیں،
اسی لیے جنگ ایک مقدس لفظ کبھی نہیں بن پاتا۔
دنیا کا سارا سچ تیری معصوم آنکھوں میں سما گیا ہے
اور تو اپنے سپنے میں مسکرا رہا ہے:
ہم اپنی خاک آلود، خون آلود سچائی میں لت پت ہیں۔
سب سمجھ دار اور ذمہ دار لوگ کہہ رہے ہیں کہ
اب مارنے اور مرنے کے سوا وقت کسی اور چیز کے لیے نہیں بچا۔
پھر بھی میں ایک ادھیڑ عمر شاعر،
بغیر تھکے، بغیر ہارے اور بغیر کسی بزدل خوشی میں شامل ہوئے
جانتا ہوں کہ ابھی بھی نہ صرف تیرے لیے
بلکہ دنیا کے تمام بچوں کے لیے
اور سب کے لیے، خوبصورت اور مقدس کو بچانے کے لیے
دعا میں ہاتھ اٹھانے اور سر جھکانے کا وقت ہے۔
دعا بھی ایک جنگ ہے
معصوم خوابوں اور کیچڑ و خون سے بھرے سچ کے درمیان
اس جگہ کو بچانے کی
جہاں سے ہم خوبصورتی اور تقدس کی طرف واپس لوٹ سکتے ہیں۔
آ، بغیر سمجھے، خاموشی سے
میرے پوتے،
دعا میں اپنے ہاتھ اٹھا۔
(اصل نظم ہندی میں ہے، جس کا یہاں ترجمہ پیش کیا گیا ہے)
(اشوک واجپئی ایک سینئر ادیب ہیں۔ ماخوذ: دی وائر ہندی)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔