نجیب کا گھر دو سال بعد بھی ماتم کدہ، دروازے پر ٹکٹکی لگائے انتظار کر رہے والد

دو سال ہو گئے لیکن نجیب کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ نجیب زندہ ہے یا نہیں۔ ماں فاطمہ نفیس اس کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہیں لیکن امید کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

اکتوبر 2016 میں نجیب احمد جے این یو سے غائب ہوا تھا، وہ دن تھا اور آج کا دن ہے، اس کے بدایوں واقع گھر میں کوئی خوشی کا موقع دیکھنے کو نہیں ملا۔ ان دو سالوں میں نجیب کی پوری فیملی منتشر ہو گئی ہے۔ والد کی طبیعت ناساز رہنے لگی ہے، والدہ در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور بھائی بہنوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہے۔ نجیب کے والد نفیس احمد کی حالت تو انتہائی غیر ہو چکی ہے۔ ایک طرف تو وہ عارضۂ قلب میں مبتلا ہو چکے ہیں اور پھر چھت سے گرنے کے سبب معذور جیسی حالت بھی ہو چکی ہے۔ وہ بس پلنگ پر لیٹے اور دروازے پر ٹکٹکی لگائے رہتے ہیں کہ کب ان کا بیٹا آئے اور وہ اسے گلے لگا لیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
نجیب احمد کے والد نفیس احمد مصلّے پر اور والدہ فاطمہ نفیس

مجیب کی تلاش و جستجو میں ان کی ماں فاطمہ دن رات ایک کیے ہوئی ہیں لیکن نہ ہی انھیں پولس انتظامیہ کا ساتھ مل پا رہا ہے اور نہ ہی قسمت ان کا ساتھ دے پا رہی ہے۔ اب تک کئی جگہ نجیب کے ہونے کی افواہ ملی اور ہر جگہ فاطمہ نفیس پاگلوں کی طرح پہنچیں لیکن سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ حد تو یہ ہے کہ انصاف کی تلاش میں نکلی نفیس کو پولس والوں نے بھی لاٹھیاں ہی دیں۔ کبھی انھیں انصاف کے مقصد سے احتجاج کرنے سے روکا گیا اور کبھی انھیں دھکے دے کر بھگایا گیا۔ لیکن ان سب کے باوجود اپنے بیٹے کی تلاش میں فاطمہ کا ایک قدم بدایوں رہتا ہے تو دوسرا دہلی میں۔

جب سے دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو نجیب معاملے میں کلوزر رپورٹ داخل کرنے کی اجازت دی ہے، فاطمہ نفیس کی ہمت بھی ٹوٹنے لگی ہے۔ حالانکہ انھوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی بات کہی ہے لیکن دو سال تک ہوئی بھاگ دوڑ اور سی بی آئی جانچ کے بعد بھی جب یہ تک معلوم نہیں ہو سکا کہ نجیب زندہ ہے بھی یا نہیں، تو آگے کس پر امید کی جائے۔ پھر بھی نجیب کے گھر والوں کا عدالت عظمیٰ پر اعتماد ہے اور انھیں امید ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔

فاطمہ نفیس کو انصاف ملتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال ان کا گھر پوری طرح اجڑ چکا ہے اور نجیب کا بھائی مجیب احمد جو کہ پروفیسر بننا چاہتا تھا، ایم ٹیک کرنے کے بعد گھر کی ذمہ داری سنبھال رہا ہے۔ اس نے پروفیسر بننے کا اپنا خواب ترک کر دیا ہے اور ملازمت میں لگ گیا ہے۔ نجیب کا ایک اور بھائی حسیب بھی زندگی میں کچھ بننے کی خواہش رکھتا تھا لیکن بی ٹیک مکمل کرنے کے بعد ماں کا سہارا بنا ہوا ہے۔ فاطمہ نفیس جہاں بھی جاتی ہیں، وہ ان کے ساتھ رہتا ہے۔ گھر میں سب سے چھوٹی نجیب کی بہن ہے جو اکثر اپنے بھائی کو یاد کر کے آنکھیں نم کر لیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔