1857 کے مرد مجاہد نواب علی بہادر ثانی

حالات بھانپ کر 14 جون کمپنی انتظامیہ باندہ کو 22 سالہ نوجوان نواب علی بہادرکے اختیار میں چھوڑ کر چلی گئی، جنہوں نے غلامی کا لبادہ اتار پھینکنے میں دیر نہ کی اور اپنی حکومت کا اعلان کر دیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

انسان دوست، فیاض، اعلیٰ نشانہ باز، بہترین گھوڑ سوار اور سڈول جسمامت کے مالک نواب علی بہادر ثانی کا شمار 1857 کے ان صف اول کے فرمانرواؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریزی غلامی کا طوق اتارنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا جبکہ انہیں اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی چار لاکھ روپے پنشن دے رہی تھی اور سلامی کے لیے گیارہ ضرب توپیں مقرر تھی۔

میرٹھ کے باغی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد باندہ میں بھی افرا تفری پھیل گئی۔ حالات بھانپ کر 14 جون کمپنی انتظامیہ باندہ کو 22 سالہ نوجوان نواب علی بہادرکے اختیار میں چھوڑ کر چلی گئی، جنہوں نے غلامی کا لبادہ اتار پھینکنے میں دیر نہ کی اور اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ پورا شہر ’خلق خدا کا، ملک بادشاہ کا، حکم نواب علی بہادر کا‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

نواب صاحب نے حکومت کی بقا اور منظم کرنے کی غرض سے ایک کونسل تشکیل دی اور تجربہ کار سابق کمپنی ملازمین کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا، خصوصاً محمد سردار خان ڈپٹی کلکٹر کو باندہ کا ناظم مقرر کیا گیا، جس نے گائے اور بیلوں کے ذبیحہ پر پابندی لگا کر ہندوؤں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کی۔ نواب صاحب نے ہمسایہ سربراہان ریاست کو ملک وقوم کے اوپر منڈلاتے خطرے کو ہر زاویے سے سمجھایا مگر لاحاصل رہا۔

نواب علی بہادر نے ایک جنگی کمیٹی کا احیاء کیا، جس کے ارکان نے آخری سانس تک لڑنے کا عزم لیا۔ اسی اثنا میں نواب صاحب سے تانتیا ٹوپے نے چرکھاری پر حملہ کرنے کے لیے فوجی مدد مانگی تو فوراً انہوں نے ایک ہزار سوار ان کی مدد کے لیے چرکھاری روانہ کئے۔


دریں اثنا جنرل سر ہیو روز 16 مارچ 1858 کو جھانسی پہنچا تو نزع کی کیفیت میں گھری رانی لکشمی بائی نے اپنے قاصد دُلارے لعل کے ہاتھ نواب صاحب کو راکھی کے ساتھ دفاعی اعانت کی التجا کا ایک خط بھیجا۔ خط سنتے ہی انہوں نے مع اپنی فوج جانے کا قصد کیا۔ لیکن اسی بیچ نواب صاحب کو اطلاع ملی کہ کمانڈر میجر جنرل جے سی وائٹ لاک کی کمان میں برطانوی فوجی باندہ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے قاصد سے انگریزی فوج کو سبق سکھانے کے بعد جھانسی آنے کا وعدہ کیا اور اس کے ساتھ تین ہزار فوجیوں کو روانہ کر دیا۔

نواب موصوف نے باندہ کی جانب بڑھتے انگریزی لشکر کے قدموں پر قدغن لگانے کے لیے کچھ سپاہ کو مہوبا بھیجا لیکن جاسوسوں سے بروقت خبر مل جانے پر انگریز ی دستہ نے راستہ بدل کر کروی میں پڑاؤ ڈالا تو نواب صاحب نے بھی اپنی صفیں درست کر کے گویرا مغلی کے روبرو گوائن نالہ کے نزدیک مورچہ جما لیا۔ 19 اپریل 1858 کو زبردست لڑائی ہوئی جو سات گھنٹے چلی۔ نواب صاحب کی فوج کو جدید ہتھیار اور ہندوستانی غداروں کے اشتراک سے شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ میدان جنگ میں 800 انقلابیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ لیکن اپنی جان کی خیر کے بجائے شکست خوردہ نواب علی خاں بہادر ثانی رانی کو دیے گیے عہد کو نبھانے کے لیے مع دس ہزار فوجیوں کے جھانسی پہنچے۔ مگر رانی جھانسی چھوڑ کر کالپی جا چکی تھی، چنانچہ وہ بھی رانی کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچ گئے اور لڑائی میں حصہ لیا۔ یہاں سے تمام انقلابی برطانوی بہی خواہ ریاست گوالیار پہنچے اور اس پر اپنا پرچم لہرا دیا۔


سقوط گوالیار نے کمپنی کو متحیر کر دیا۔ لہٰذا 16 جون کو سر ہیو روز، بریگیڈئیر اسمتھ اور میجر روز کے فوجی دستوں نے اپنے نمک خوار کی ریاست کو انقلابیوں سے آزاد کرانے کے لیے گوالیار پر یلغار کر دی۔ رانی کے ساتھ نواب باندہ نے اپنی بھی تلوار کے جوہر دکھائے۔ انقلابی فوج نے ایسی مزاحمت کی جسے دیکھ کر انگریز متذبذب ہو گئے۔ دوران جنگ رانی لکشمی بائی نے نواب علی بہادر سے وعدہ لیا کہ بھائی میری لاش کو فرنگیوں کے ہاتھ نہ لگنے دینا۔ یہی وجہ ہے کہ جب رانی 18 جون 1858 کو شہید ہوئیں تو نواب علی بہادر انہیں راہب کے بھیس میں بابا گنگا داس راؤ کی جھونپڑی میں لے گئے اور رانی کے محافظ گل محمد وغیرہ کے ساتھ مل کر آخری رسومات ادا کیں۔

بعد ازاں نواب صاحب لڑتے بھڑتے راجستھان اور گجرات کے راستے وسطی ہند کے سرونج پہنچے۔ انقلاب 1857 کی ناکامی کے بعد حکومت کمپنی بہادر سے نکل ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ ملکہ کی عام معافی اعلان کے بعد نواب صاحب نے جنرل مائیکل کے سامنے 19 نومبر 1858 کو رات اوس کلی کمیپ میں آٹھ بجے ہتھیار ڈال دیے۔ لیکن جابر حکام نے انہیں ریاست سے بے دخل اور سارا خزانہ ضبط کر کے پورے خاندان سمیت اندور کے قریب مہو میں نظر بند کر دیا۔ بعد ازاں چھتیس ہزار روپے پنشن مقرر کر دی۔ نواب علی بہادر ثانی 27 اگست 1873 کو اس دار فانی سے دارالبقا کی جانب روانہ ہو گئے۔ لیکن ان کی جلائی ہوئی انقلابی مشعل ہندوستان کے انقلابیوں کی رہبری کرتی رہی اورجنہوں نے 15 اگست 1947 کو برطانوی نو آبادیاتی نظام کا تختہ پلٹ کر ہی دم لیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔