گنگا-جمنی تہذیب کا ایک نمونہ روضہ کاظمین، جگن ناتھ اگروال کا تحفہ

روضہ کاظمین کی شاندار عمارت دور سے ہی نظر آتی ہے، دو گنبد، چار مینار اور بڑا صحن عمارت کو چار چاند لگا رہا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

حسین افسر

اودھ کے شاہوں اور ان کے مریدوں میں یہی خصوصیت مشہور ہوئی کہ انہوں نے اپنے مذہب کے علاوہ دوسروں کے دین و دھرم کی بھی عزت کی۔ بدلے میں دوسرے دھرم والوں نے بھی مذہب حقہ کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ اس سے متعلق عمارتوں اور یادگاروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔

اودھ کے شاہی دور میں جس گنگا-جمنی تہذیب کی آبیاری کی گئی اس کو تمام انقلابات زمانہ کے باوجود کسی حد تک تادم تحریر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ شاہی حکومت میں اعلی عہدوں پر متمکن غیر مسلموں نے بھی گنگا-جمنی ثقافت کو خوب پروان چرھایا۔ مسلم حکمرانوں نے مندروں کے لیے زمینیں، دولت دی تو راجہ ٹکیت رائے، راجہ جھاؤ لال اور دیگر ہندو حکومتی حکام نے امام باڑے،کربلائیں اور دیگر مذہبی مقامات کی تعمیر میں حصہ لیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
روضہ کاظمین کا صدر دروازہ

اسی لئے اودھ کی تہذیب اور ثقافت پوری دنیا میں مشہور و مقبول ہے۔ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کے دین و دھرم کی عزت لکھنؤ اور قرب و جوار کی شناخت بن چکی ہے۔اودھ کے خطہ میں رواداری کے انگنت قصے اس نئی نسل کے لئے سبق آموز ہیں جو دین و دھرم کی آڑ میں سماج میں بد امنی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

پرانے لکھنؤ کے محلے منصور نگر میں واقع روضہ کاظمین (سال53- 1847) کی کہانی بھی کچھ اسی طرح ہے۔ جگن ناتھ اگروال جو بعد میں شرف الدین غلام رضا بنے، بادشاہ امجد علی شاہ کے دور میں ان کے ایک وزیر تھ۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
روضہ کاظمین کا پچھلا حصہ

غلام رضا عرف جگن ناتھ اگروال نہ صرف بادشاہ کے مقرب خاص تھے بلکہ وہ امامیہ مذہب میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔انہوں نے سوچا کہ لکھنؤ میں زیادہ تر اماموں کے روضوں کی نقل تو ہے مگر عراق میں واقع کاظمین کی نقل موجود نہیں ہے۔ غلام رضا عرف جگن ناتھ اگروال نے علاقہ منصور نگر میں زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑا خریدا اور روضہ کاظمین کی تعمیر شروع کردی۔

یہ شاندار تعمیر عراق میں خانوادہ رسول ؐ کی نسل کے امام حضرت موسی کاظم اور امام حضرت محمد تقی نے بنانے کی کوشش تھی۔ شرف الدولہ غلام رضا کی اسی روضہ میں قبر بھی ہے لیكن واجد علی شاہ کے مٹابرج جانے کے بعد مارچ 1858 میں کاظمین کو بھی انگریزی فوجوں نے اپنا نشانہ بنایا اور زبردست لوٹ مار کی روضہ کاظمین کا آرائشی سامان بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں نے بڑی بے دردی سے لوٹ لیا۔

روضہ کاظمین کی شاندار عمارت دور سے ہی نظر آتی ہے، دو گنبد، چار مینار اور بڑا صحن عمارت کو چار چاند لگا رہا ہے۔ كہا جاتا ہے کہ دونوں گنبدوں پر سونا منڈھا ہوا تھا مگر اب یہاں کے ذمہ دار بتاتے ہیں کہ انگریزی فوج کی لوٹ مار کے بعد اب گنبد پر پیتل کی چادریں ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
روضہ کاظمین

شرف الدولہ کی تلاش میں ہی انگریزی فوج نے کاظمین پر قبضہ کیا اور اس کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ مگر شرف الدولہ کی حکمت اور تدبر نے دوبارہ روضہ کاظمین کو واپس دلوا دیا۔ اس کے بعد روضہ کی دوبارہ تزئین کاری ہوئی، اس کی آرائش و زیبائش نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرایا جس کے سبب عمارت کو دور دور سے لوگ دیکھنے آنے لگے۔

عمارت میں داخلے کے لئے دو منزلہ پھاٹک ہے۔اس کے دائیں اور بائیں غلام گردشیں ہیں اور ایک خوبصورت حوض ہے جہاں ایک علم مبارک مع مشک یادگار کے طور پر نصب ہے۔

روضہ کے مرکزی ہال میں ضریح، تعزیے اور شرف الدولہ اور ان کی بیوی کی قبریں ہیں۔ شرف الدولہ کی قبر پر ایک ماربل پتھر پر 1278 ہجری (1861) کے طور پر ان کی موت کے بارے میں لکھا ہے جو فارسی میں شاعری کے طورپر کندہ ہے۔

شاہی دور سے ہی دسویں محرم کو چھوٹے امام باڑے سے یہاں ضریح تعزیہ کا شاندار جلوس آتا تھا ، جس میں شاہی ماہی و مراتب کے اعلی نمونہ قابل دید تھے۔عزاداری کی آخری رات یعنی آٹھ ربیع الاول کی صبح یہاں شہر کے کونے کونے سے جلوس آتے تھے اور تاریخی چپ تعزیہ بھی یہیں اختتام پزیر ہوتا تھا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
روضہ کاظمین سے متصل مسجد کوفہ کا صحن

روضہ کاظمین سے متصل مسجد کوفہ ہے جس کو نواب رفیق الدولہ نے تعمیر کرایا تھا۔ مسجد سرخ رنگ سے بنی ہوئی ہے اور اس عمارت میں بہت سے در بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسجد مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اور شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کی یاد میں تعمیر کی گئی، عراق کے كوفہ شہر میں ایسی ہی مسجد میں رمضان المبارک کے مہینہ میں صبح کی نماز پڑھنے کے دوران حضرت علیؑ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور اس کے تین دن بعد ان کی شہادت ہو گئی تھی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
مسجد کوفہ کا اندرونی حصہ

آثار قدیمہ کی محفوظ عمارتوں کی فہرست میں روضہ کاظمین درج ہے اور بسا اوقات اس کی تزئین کاری کا کام سرکاری محکمہ کرتا رہتا ہے۔عزاداری اور دیگر انتظام و انصرام حسین آباد ٹرسٹ انجام دیتا ہے۔اس ٹرسٹ کی جانب سے ہی اس عمارت میں پروگرام انجام دئیے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔