کربلا آغا میر، جو اب بھی فری میسن کے قبضہ میں ہے

ایک چھوٹی مسجد بھی کربلا کی املاک میں تھی، جو اب تک موجود ہے۔ یہ عمارت 21 بیگھہ دس بسوا زمین پر تعمیر ہوئی تھی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

حسین افسر

آزادی سے قبل انگریزوں نے پورے ہندوستان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے ۔سماج کے دیگر طبقات کو ایک دوسرے سے لڑوانے اور کئی ایسی تحریکوں کو جنم دینے کا کام کیا جو سامراجی طاقتوں کو ہر حال میں اقتدار میں رکھ سکے۔

چونکہ اودھ میں حکمراں شیعہ قوم تھی اس لیے انگریزوں نے چن چن کر ان کے مذہبی مقامات پر قبضہ کیا، برباد کیا اور ان عمارتوں کو دوسروں کے حوالے کر کے ایک قسم سے اس قوم کو دکھ دینے کی کوئی بھی سازش کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہت سے امامباڑوں ،کربلاؤں اور عبادت گاہوں کو چھین کر ان میں اسپتال، چھاؤنی اور چرچ تک بنا ڈالے ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اودھ کی اس وقت کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹکر لی تھی۔ سامراجی طاقتوں نے اس طویل فہرست میں مسجد ٹیلا شاہ پیر محمد، مسجد آصفی، امام باڑہ آصف الدولہ ، امام باڑہ سبطین آباد حضرت گنج کے علاوہ کئی عمارتوں کو اپنے قبضے میں لیا۔

کربلا آغا میر، جو اب بھی فری میسن کے قبضہ میں ہے

کربلا آغا میر بھی اسی لمبی فہرست کا ایک حصہ ہی۔ اس کربلا کو چھین کر بدنام زمانہ تنظیم فری میسن کے حوالے کر دیا گیا، فری میسن سامراجی طاقتوں کے لئے کام کرنے والی ایک ایسی تنظیم ہے جو اسی ملک کے کچھ لوگوں کو شامل کرکے ان کے ہی سماج کا استعمال کرتی ہے۔ فری میسن تحریک نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور آزادی کے متوالوں کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا۔املاک اور عبادت گاہوں نیز ان شاندار جائدادوں پر اپنا قبضہ کیا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ نہیں دیا۔ ملک بھر میں فری میسن نے پراسرار، خفیہ اور دہشت گرد سرگرمیاں شروع کردیں۔لکھنؤ میں کربلا آغا میر میں فری میسن نے اپنا گڑھ بنایا اور اس مذہبی عمارت سے ایسی تحریک شروع کر دی جس نے پورے ملک کو نقصان پہنچایا ،کربلا آغا میر پر فری میسن کا قبضہ ہے اور خفیہ کارروائیوں کی وجہ سے اسکو لوگ ’جادو گھر‘ بھی کہتے ہیں۔

کربلا آغا میر حضرت گنج اور بنارسی باغ یعنی لکھنؤ کے زندہ و مردہ عجائب گھرکے وسط میں محلہ نرہی میں ہے۔ نصیر الدین حیدر کے دور میں 1851 عیسوی، میں امام موسی کاظم اور امام محمد تقی علیہم السلام کی قبر کی نقل نواب آغا میر نے بنوائی تھی۔ عمارت کے چار سمتوں میں چار گلدستے ہیں جن میں چکر دار زینے بنے ہوئے ہیں اور اوپری جانب تین گول گنبد ہیں۔ ایک چھوٹی مسجد بھی کربلا کی املاک میں تھی، جو اب تک موجود ہے یہ عمارت 21 بیگھہ دس بسوا زمین پر تعمیر ہوئی تھی اور تعزیئے دفن ہونے کی جگہ سیٹھ اور پتوار کی آمدنی سے کسی زمانے میں تین چار سو روپئے کی سالانہ آمدنی ہوتی تھی۔ نواب نے اس کی تعمیر میں ایک لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ 29 سال تک اس کربلا میں سلطان عالم واجد علی شاہ عزاداری بدستور انجام دیتے رہے ۔فروری 1856 ءمیں کربلا پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کرلیا، 16 اگست 1860 ءکو کربلا اور دوسری عمارتوں کے ساتھ واگذار ہوئی اوروزیر صحت حکیم مرزا مہدی کے انتظام میں آگئی۔ 29 اکتوبر 1859 ءکو مرزا سکندر حشمت کے استاد مرزا صاحب تھے،ان کی اطلاع کے مطابق منشی کرامت حسین داروغہ نزول 16 اپریل 1890 ء کو دوبارہ نزول میں درج ہو گئی .SCATTISH MASON LODGE کا قبضہ ہوا۔

کربلا آغا میر، جو اب بھی فری میسن کے قبضہ میں ہے

اب تک وہاں جادو گھر فری میسن لاج گیارہ بیگھہ زمین پر سرکاری اور غیر سرکاری طاقتوں کا قبضہ ہے اورکربلا کی زیادہ تر زمین کو حکومت اور غیر سرکاری لوگوں نے بیچ دیا ہے۔کربلا کی دیگر املاک پر محکمہ جنگلات اور سرکاری دفتروں کی بھرمار ہے۔بلڈروں نے دھڑلے سے زمین کی خرید و فروخت کی اور اب صورتحال یہ ہے کہ کربلا معتمد الدولہ آغا میر کی اصل عمارت بچی ہے بقیہ حصوں سے سڑکیں بھی نکالی گئی ہیں ۔اکھلیش یادو کی سرکار میں تقریبا ًایک لاکھ افراد نے دستخط کر کے کربلا کی واگزاری کا مطالبہ کیا تھاجو بے سود ثابت ہوا۔سرکار نے اوقاف کے تحفظ کے بجائے لا پرواہی کا مظاہرہ کیا اور اس کربلا کے لئے کسی بھی طرح کی دلچسپی نہیں دکھائی۔

اس سلسلے میں گزشتہ پانچ سال سے کربلا کی واپسی کی تحریک جاری ہے۔لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مولانا کلب جواد نے اس تحریک کے بارے میں بتایا کہ کربلا آغا میر قوم کے حوالے کی جائے، کیونکہ یہ جائیداد حکومت کے ہی ایک شعبہ شیعہ وقف بورڈ میں درج ہے۔

کربلا آغا میر، جو اب بھی فری میسن کے قبضہ میں ہے

زمین جسے پہلے ہی غیر قانونی طور پر حکومت اور بلڈروں کے ہاتھوں فروخت ہو چکی ہے اور اس پر بہت سے ناجائز لوگوں کا قبضہ ہے، ایک بار پھر ایل ڈی اے کربلا کی بچی کھچی زمین اور اس کی عمارت کو دوسروں کے ہاتھ فروخت کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔کربلا آغا میر کی واپسی کے لئے شیعہ کمیونٹی نے مہم شروع کی ہوئی ہے۔

مولانا سید سیف عباس نقوی نے ایک خط ایل ڈی اے، سکریٹری اقلیتی بہبود حکومت اتر پردیش اور چیئرمین شیعہ وقف بورڈ، اترپردیش کو لکھا تھا اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ ایسی کسی بھی سرگرمی سے جس کی وجہ سے وقف کربلا کی جائیداد کی منتقلی ہو اور کسی بھی طرح کا نقصان ہو، وقف ایکٹ1959(ترمیم) کے تحت انتہائی غیر قانونی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Mar 2018, 7:17 AM