لکھنو کے شاندار امام باڑہ سبطین آباد کا پھاٹک زمیں بوس، سرکار کی دلچسپی نہیں!

قدیم اور تاریخی امام باڑہ کا شاندار پھاٹک قبضوں کی وجہ سے روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا اور ایک مشہور ریسٹورینٹ اور دیگر افراد کا قبضہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ عمارت کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

حسین افسر

لکھنؤ: گزشتہ ہفتے شہر لکھنؤ بالخصوص یہاں کی عمارتوں سے عشق رکھنے والوں کو اُس وقت زبردست دھچکا لگا جب تاریخی امام باڑہ سبطین آباد کا بیرونی پھاٹک اچانک منہدم ہوگیا۔ لکھنؤ میں لاک ڈاون کی وجہ سے یہاں سناٹا تھا اس لئے کسی کی جان کے نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ قدیم اور تاریخی امام باڑہ کا شاندار پھاٹک قبضوں کی وجہ سے روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا اور ایک مشہور ریسٹورینٹ اور دیگر افراد کا قبضہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ عمارت کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔

وقف امام باڑہ سبطین آباد کے متولی محمد حیدر رضی جو پیشے سے کارپوریٹ وکیل ہیں، محکمہ آثار قدیمہ کو کئی درجن خط لکھ چکے تھے کہ یہ پھاٹک اپنی بوسیدگی کی وجہ سے کسی بھی لمحہ زمیں بوس ہو سکتا ہے، مگر نہ تو آثار قدیمہ والوں اور نہ ہی سرکار کے کسی محکمہ نے ان خطوط پر کوئی توجہ دی۔ ریسٹورینٹ کے مالکان نے اس پھاٹک کی چھت پر دیو پیکر پانی کی ٹنکیاں نصب کر رکھی تھیں اور دیگر سامان بھی قبضہ داروں نے جمع کیا ہوا تھا۔

لکھنو کے شاندار امام باڑہ سبطین آباد کا پھاٹک زمیں بوس، سرکار کی دلچسپی نہیں!

محمد حیدر نے پھاٹک کے منہدم ہوتے ہی اس کی اطلاع پولیس، ریاستی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کو تحریری طور سے دی مگر اب تک اس واقعہ کی نہ کوئی پولیس رپورٹ درج کی گئی اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ کے کانوں پر جوں رینگی ہے۔ لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں میں دنیا کی دلچسپی رہتی ہے۔ ہر سال ان شاہی املاک کو دیکھنے لاتعداد سیاح جب ہندوستان آتے ہیں تو ان کا رخ اس قدیم اور روایتی شہر کی جانب بھی ہوتا ہے۔

شہر لکھنؤ اودھ کی راجدھانی رہ چکی ہے اور سر دست ریاست اتر پریش کا دارالحکومت ہے۔ ماضی کی شاندار یادوں اور زریں تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہاں کی دلچسپ کہانیاں اور افسانے بھی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ پرشکوہ عمارتوں کا سلسلہ اور ان کی تاریخ معلوم کرنے میں نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی ہوتی ہے بلکہ ان مورخین کی بھی جستجو رہتی ہے جو اودھ اور بالخصوص لکھنؤ کے شاہی دور کے سلسلے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

لکھنو کے شاندار امام باڑہ سبطین آباد کا پھاٹک زمیں بوس، سرکار کی دلچسپی نہیں!

آصف الدولہ کے فیض آباد سے لکھنؤ کوچ کرنے کے بعد اس شہر کو اودھ کی راجدھانی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ آصف الدولہ نے جو عمارتیں اپنے دور میں بڑے ذوق و شوق سے بنوائیں ان میں سب سے زیادہ امام باڑہ آصف الدولہ یعنی بڑا امام باڑہ مشہور ہوا۔ اس لق و دق امام باڑے کی چھت، جس کو بھول بھلیاں کہا جاتا ہے اور کمپلیکس کی شاندار بلند و بالا آصفی مسجد قابل دید ہے۔ لکھنؤ کے فیشن ایبل علاقے حضرت گنج میں واقع امام باڑہ سبطین آباد کی تعمیر آخری تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ نے اپنے دور حکومت میں 1847 میں مکمل کرائی تھی تاکہ اس میں عزادری ہو سکے۔

واجد علی شاہ کے والد بادشاہ امجد علی شاہ نے امام باڑہ سبطین آباد کی تعمیر شروع کرائی تھی لیکن زندگی نے ان سے وفا نہیں کی اور انجام کار ان کو اسی امام باڑے میں دفن کیا گیا۔ واجد علی شاہ کے انگریزوں سے تعلقات خراب ہو چکے تھے اور اودھ میں گوروں کی بالا دستی تھی۔ ایسے حالات میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے بادشاہ نے اپنی زندگی مٹیا برج کلکتہ میں گزاری اور وہیں پیوند خاک ہوئے، چونکہ لکھنؤ میں خلا پیدا ہو گیا تھا اور غدر کی تباہ کاریوں کے درمیان شاہی دور اور اس کی املاک کی لوٹ مار کا دور شروع ہو چکا تھا اس لئے امام باڑہ سبطین آباد بھی تباہ ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے اس امام باڑے کو اپنی چھاؤنی اور اسپتال بنا لیا تھا، حتی کہ 1858 سے 1860 تک امام باڑے کو گرجا گھر کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ خوبصورت شیشئہ آلات سے سجا سنورا امام باڑہ سبطین آباد غدر کی تباہیوں کو جھیل نہیں سکا اور اس کے بعد سے اس پر قبضوں کی بھرمار شروع ہو گئی۔


دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ملائم سنگھ کے دور حکومت میں اس عمارت کو انتہائی جد و جہد کے بعد حاصل کیا جا سکا اور جب سے اب تک یہاں عزاداری، نیز دیگر مزہبی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ اب اہل لکھنؤ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس عمارت پر سے کس طرح قبضہ دار ہٹائے جائیں گے، کیونکہ فی الحال سرکار اور آثار قدیمہ کی اس میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔

لکھنو کے شاندار امام باڑہ سبطین آباد کا پھاٹک زمیں بوس، سرکار کی دلچسپی نہیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Apr 2020, 9:11 PM
/* */