درگاہیں... جہاں چین و سکون نصیب ہوتا ہے

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

رعنا صفوی

ہندوستان میں درگاہوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں ہر کوئی بلا روک ٹوک جا سکتا ہے اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی ہو یا پھر غریب، امیر، افسر یا ملازم،درگاہوں میں سبھی کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔درگاہوں میں سبھی کو پیار و محبت اور امن و امان کا پیغام ملتا ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنی حاجت لے کر آتا ہے اور صوفی بزرگ کی دعاء لے کر لوٹتا ہے۔

درگاہوں پر میرا آنا جانا بہت ہوتا ہے اور وہاں جا کر مجھے جس سکون کا احساس ہوتا ہے اس کا بیان ممکن نہیں۔ مسجدوں میں لوگ نماز پڑھنے اور عبادت کرنے کے مقصد سے جاتے ہیں لیکن جنھیں چین و سکون کی حاجت ہوتی ہے وہ درگاہوں میں پناہ لیتے ہیں۔ جب آپ کسی ولی یا صوفی کی درگاہ میں بیٹھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ آپ کو سزا دینے پر آمادہ نہیں رہتا بلکہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ چونکہ اولیاء اپنے رب یعنی اللہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اس لیے جب کچھ لوگوں کو اپنے گنہگار ہونے کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے تو ولیوں کی پناہ میں جاتے ہیں اور انھیں وسیلہ بناتے ہیں۔ وسیلہ بناتے ہیں اپنی بات اور اپنی حاجتوں کو اللہ تک پہنچانے کے لیے۔ ولیوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعاء کر دیجیے تاکہ ہماری حاجتیں پوری ہو جائیں۔ کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ دینے والا تو صرف اللہ ہے پھر درگاہوں پر کیوں جاتے ہیں۔ یقیناً دینے والا صرف اللہ ہے لیکن اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی زیادہ سنتا ہے اس لیے ہم ولیوں کو وسیلہ بنا کر اللہ سے ہی مانگتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گھر میں اگر کوئی بچہ اپنے والد سے ڈرتا ہے تو اپنی حاجت پوری کرنے کی خواہش والدہ سے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ماں کی بات مان لی جائے گی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

بہر حال، میں گزشتہ دنوں کرناٹک گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ریاست میں جب 14ویں-17ویں صدی میں عادل شاہی حکومت تھی تو تقریباً 300 صوفی نے بیجا پور کو اپنی رہائش گاہ بنایا تھا۔ ویسے تو میں بیدر اور گلبرگہ وغیرہ کی درگاہوں پر بھی گئی لیکن بیجا پور میں مجھے ایک الگ ہی کیفیت کا احساس ہوا، ایک بہت خوبصورت احساس۔ میں جس وقت وہاں گئی تھی ’اماوشیا‘ (جب چاند آسمان پر بالکل بھی نہیں ہوتا) کی رات تھی اور کہا جاتا ہے کہ اس دن جنّ قید ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اَماوشیا کی رات کو ’کالے جادو‘ کے لیے بھی جانا جاتا ہے اس لیے اس رات کئی طرح کے جادو ٹونے بھی لوگ کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں درگاہوں کی بات کر رہے ہیں، یہاں بھی کئی لوگ بری نظر سے بچنے، جادو ٹونا سے نجات پانے اور دماغی امراض کا علاج کرانے پہنچتے ہیں۔ دراصل ہندوستان میں اگر آپ کا دماغی توازن ذرا بھی بگڑ جاتا ہے تو لوگ اس کو جنّ کا اثر، بھوت پریت یا کالے جادو کا اثر بتانے لگتے ہیں۔ اس کے علاج کے لیے بہت کم لوگ ہیں جو ماہر نفسیات یا معالج کے پاس جاتے ہیں۔ اکثر لوگ درگاہوں کا رخ لیتے ہیں۔ کئی لوگ ماہر نفسیات کے پاس جاتے بھی ہیں تو درگاہوں پر جانے کے بعد۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ اگر اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلے جائیں، اور وہ بھی دماغ کے ڈاکٹر کے پاس، تو لوگ کہنے لگیں گے کہ یہ لڑکی تو پاگل ہے۔ لیکن آپ درگاہ میں جائیں گے تو اس طرح کی باتیں نہیں اٹھیں گی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

بہر حال، بیجا پور میں ایک بڑی درگاہ ہے شیخ امین الدین اعلیٰ کی جو شہر سے تھوڑا باہر ہے۔ میں جب وہاں پہنچی تو تین چار عورتیں اور ایک بچی وہاں محو دعا تھے۔ عورتیں سندور اور بندی لگائے ہوئے تھیں جس سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ مسلم نہیں ہیں۔ جب وہ دعا کر چکیں تو میں نے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آتی ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ اس درگاہ سے ان کی حاجتیں پوری ہوئی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اس درگاہ کے بارے میں اُس کی موسی نے بتایا تھا جنھوں نے اپنی بیٹی اور داماد کے خراب رشتے اچھے بنانے کے لیے دعا کی اور وہ حاجت پوری ہو گئی۔ اس خاتون نے مزید بتایا کہ میری بیٹی کی زندگی میں بے چینی تھی اور اس کی طبیعت میں بھی ٹھہراؤ نہیں تھا اس لیے موسی نے اس درگاہ میں آنے کا مشورہ دیا اور اب میری بیٹی بہت پرسکون زندگی گزار رہی ہے۔ اب یہ خاتون ہر اَماوشیا کو یہاں آتی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

میں کرناٹک میں شاہ مرتضیٰ قادری کی درگاہ پر بھی گئی۔ وہاں بہت بھیڑ تھی، سینکڑوں لوگ اپنے کسی نہ کسی مریض رشتہ دار کے ساتھ وہاں آئے ہوئے تھے۔ درگاہ میں لوگ جس طرح سے ٹھہرے ہوئے تھے ہاسٹل کا نظارہ معلوم پڑ رہا تھا۔ یہاں میری ملاقات آمنہ بی بی نام کی خاتون سے ہوئی جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ ان سے درگاہ میں حاضری کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ یہاں آ کر انھیں گھر جیسا ماحول ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے سر پر کسی کا ہاتھ ہے۔ دراصل کئی بار درگاہ سے تعلق رکھنے والے ولی یا بزرگ کو لوگ اپنا سرپرست تصور کرنے لگتے ہیں اور ایک سرپرست سے جس طرح بلاجھجک کچھ بھی مانگا جاتا ہے، اسی طرح درگاہ میں بھی اپنی حاجت پیش کر دیتے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر تو میں کئی بار گئی ہوں اور یہاں بھی میں دیکھتی ہوں کہ کچھ لوگ اپنی بچی کی شادی کے لیے دعا مانگتے ہیں تو کچھ لوگ روزگار کے لیے، کچھ لوگ گھر میں لڑائی جھگڑے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دعا مانگتے ہیں تو کچھ اولاد کی طلب میں۔ درگاہوں پر اس طرح کی دعائیں عام بات ہیں۔ لیکن کچھ ایسے درگاہ بھی ہیں جو کسی خاص طلب کے لیے بھی مشہور ہیں۔ ایسا ہی ایک درگاہ کرناٹک کے خلد آباد میں ہے۔ میں نے وہاں دیکھا کہ درگاہ میں پریوں کا ایک تالاب ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں نہا لو تو حمل ٹھہر جاتا ہے۔ یعنی جس کو اولاد نہیں ہو رہی ہے وہ لوگ اس درگاہ میں جاتے ہیں اور پریوں کے تالاب میں غسل کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ہر مذہب کے لوگ اس تالاب میں غسل کر رہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے۔ تالاب میں نہا کر وہاں ’سہاگ پوڑا‘ جیسا عمل بھی کر رہے تھے۔ دراصل ’سہاگ پوڑا‘ ہندوؤں میں شادی کے وقت ہوتا ہے جس کے دوران دلہن کی گود بھری جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کا عمل خلد آباد درگاہ میں ہوتا تھا۔

دیکھا جائے تو درگاہوں کے اندر گنگا-جمنی تہذیب کا جو خوبصورت نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ کسی اور جگہ ممکن نہیں۔ درگاہوں پر لوگ بلاتفریق مذہب و ملت ہنسی خوشی جاتے ہیں اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔ دہلی اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں جہاں 22 خواجگان کی چوکھٹ ہے۔ جب تک یہ 22 خواجگان یہاں موجود ہیں، دہلی کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہاں امن و امان کی فضا برقرار رہے گی۔ جب تک درگاہیں ہیں، ہر فرق کو بھلا کر لوگ پیار و محبت اور امن و امان کو فروغ دیتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 22 Apr 2018, 9:37 AM