شیئر بازار کا اُچھال ایک بلبلہ ہے جو جلد پھوٹے گا!

جو سمجھدار سرمایہ کار ہیں وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ جو سرمایہ کار ماحول کو دیکھ کر داؤ لگاتے ہیں وہ اس وقت تک کھل کر کھیل رہے ہیں جب تک تیزی کا دور ہے۔

تصویر نوجیون
تصویر نوجیون
user

راہل پانڈے

2015 میں ایک فلم آئی تھی جس کا نام ہے ’بگ شارٹ‘۔ یہ فلم 2008 کے عالمی بحران پر مبنی تھی۔ اس فلم کا ایک ڈائیلاگ کچھ اس طرح تھا کہ ’’کوئی بلبلہ نہیں دیکھ سکتا، یہی تصور بلبلے کو بناتا ہے۔‘‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ بلبلہ آخر کار پھوٹتا ہی ہے۔ لیکن اس بار بلبلہ کچھ بڑا نظر آ رہا ہے۔

سنسیکس کے 35800 کا عدد پار کرنے اور نفٹی کے 11000 چھونے سے واضح ہے کہ تیجڑیوں نے مندڑیوں کو باندھ کر رکھا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ مندڑیے کب تک خاموش رہیں گے اور اپنا شکار کریں گے؟ ایک بار مندڑیے میدان میں آ گئے تو پھر یہ اس متوسط طبقہ کو کتنا نقصان پہنچائیں گے جنھیں بھروسہ دلایا گیا ہے کہ شیئر بازار ہی ان کا پیسہ محفوظ رکھنے کی واحد مناسب جگہ ہے اور یہیں سے ان کی کمائی دوگنی-چوگنی ہو سکتی ہے، کیونکہ بازار تو اوپر کی ہی طرف بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ سال نوٹ بندی کے بعد سے شیئر بازار میں خوابوں کی پرواز جاری ہے۔ 8 نومبر 2016 کو سنسیکس 27591 پر تھا جو تقریباً 28 سے 30 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ بازار کا یہ اچھال ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کی معیشت کی بنیاد انتہائی کمزور اور خستہ حال ہے۔ اس پر پہلے نوٹ بندی کا حملہ ہوا اور پھر اس کے بعد جی ایس ٹی کا۔

جو سمجھدار سرمایہ کار ہیں وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ بازار کی تیزی پر ان کی سوچ واضح ہے۔ جو ماحول کو دیکھ کر داؤ لگاتے ہیں وہ اس وقت تک کھل کر کھیل رہے ہیں، جب تک تیزی کا دور ہے، اور جو بازار کے بنیادی نظام پر نظر رکھتے ہیں وہ حیران ہیں کہ یہ سب کب رکے گا اور آگے کیا ہوگا۔ دراصل بازار کی تیزی وہاں پہنچ گئی ہے کہ اب تو تکنیکی نکات کا حساب رکھنا ہی بے کار سا ہو گیا ہے۔

لیکن ان کی فکر بیجا نہیں ہے۔ دراصل پرافٹ کو ایکویٹی ریشیو یعنی فی شیئر فائدہ اور پرائس ٹو بُک ریشیو یعنی فی اکاؤنٹ قیمت ایسی سطح پر پہنچ گئی ہے جس کا کوئی سمجھداری بھری وجہ واضح نہیں ہے۔ نفٹی کا پی ای 27.62 پر ہے جب کہ پی بی یعنی پرائس ٹو بُک ریشیو 3.7 کو پار کر چکا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اس ایکسچینج میں بیچے و خریدے جانے والے شیئروں کی قیمت اپنی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ 8 نومبر 2016 کو نفٹی میں پی ای 22.57 تھا جس کا مطلب تھا کہ نفٹی میں شیئروں کی قیمتیں صرف سٹے بازی کی بنیاد پر ہی اوپر ہوئی ہیں نہ کہ کسی مضبوط وجوہات سے۔

لیکن پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے، اسے سمجھنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آخر تیزی کے اس دور کی وجہ کیا ہے؟ گزشتہ سال نوٹ بندی کا اعلان ہونے سے پہلے تک گھریلو تنظیمی سرمایہ کار بازار میں بہت تیزی سے پیسہ لگا رہے تھے۔ نومبر 2016 تک انھوں نے تقریباً سوا لاکھ کروڑ روپیہ بازار میں لگائے، لیکن اسی دوران غیر ملکی اداروں سے منسلک سرمایہ کاروں نے 70 ہزار کروڑ سے زیادہ پیسہ بازار سے کھینچ لیا۔

اب تھوڑا اور دھیان سے دیکھیں تو نوٹ بندی سے پہلے کے 14 مہینوں میں گھریلو تنظیمی سرمایہ کاروں نے بازار میں 31531 کروڑ روپے لگائے جب کہ اس دوران غیر ملکی اداروں سے منسلک سرمایہ کار کا تعاون محض 1083 کروڑ روپے تھا۔ ان اعداد و شمار سے ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مقابلے گھریلو سرمایہ کار بازار میں چار گنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ سوال ہے کہ یہ کون سا پیسہ ہے؟

ہو یہ رہا ہے کہ شیئر بازار میں اچھال ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک کا رئیل اسٹیٹ بازار ٹھپ پڑا ہے۔ اس سیکٹر میں ستمبر 2017 تک بغیر فروخت ہوئے مکانوں کی تعداد تقریباً 6.85 لاکھ تھی۔ اس دوران سونا محض 3 فیصد ہی اوپر گیا جو کہ مہنگائی شرح کے آس پاس ہی تھا۔ ایسے میں جب شیئر بازار میں سونا کے مقابلے 10 گنا ریٹرن ملنے لگا تو سرمایہ کار شیئر بازار کی طرف دوڑ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازار ایسی سطح پر پہنچ گیا جس کا تکنیکی بنیاد پر تجزیہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

اسٹاک مارکیٹ ویلیوئشن کی طرح ہی سنسیکس کی پی ای ریشیو بھی 26.03 کی ریکارڈ سطح پر ہے۔ جنوری 2008 میں سنسیکس نے 20728 کا ریکارڈ نمبر چھوا تھا، اس وقت پی ای ریشیو 25.53 تھی۔ اس کے بعد بازار میں زبردست تبدیلی ہوئی اور مارچ 2009 آتے آتے یہ 9000 پر آ گئی اور ساتھ ہی پی ای ریشیو بھی 12.68 پر پہنچ گیا۔ اگلے ہی سال یعنی نومبر 2010 میں سنسیکس نے واپس 21000 کا نمبر حاصل کیا اور پی ای ریشیو بھی 23 کے آس پاس آ گیا۔ لیکن اس کے بعد پھر بازار نے تقریباً 5000 نمبر کا غوطہ کھایا تھا۔

تیجڑیے دراصل کمائی سیزن کی شروعات سے پہلے اپنی کمائی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک صرف 100 سے اوپر ہی کمپنیوں نے اپنی سہ ماہی نتیجے پیش کیے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ فائدہ کے لیے نمبرس سے پی ای میں گراوٹ آئے گی، لیکن ایک چھوٹا سا معاشی بحران سامنے نظر آ رہا ہے۔

بازار اب اصلاح چاہتا ہے، اور وہ بھی طویل مدت تک۔ لیکن تب تک گھریلو سرمایہ کار پیسہ ڈالتے رہیں گے اور بازار اچھلتا رہے گا۔ ان سب کے درمیان اس کہاوت کو دھیان میں رکھنا ہوگا جو بازار کے ضمن میں کہی جاتی ہے، کہ تیجڑیے بھی پیسہ بناتے ہیں اور مندڑیے بھی، مارے تو بے چارے چھوٹے سرمایہ کار ہی جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔