شیئر بازار کو زبردست دھچکا، بیرونی سرمایہ کاروں نے انگوٹھا دکھایا

Getty Images
Getty Images
user

راہل پانڈے

مودی حکومت نے مئی 2014 میں جب سے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اس وقت سے ہی بیرونی سرمایہ کار ہندوستانی بازاروں میں صرف فروختگی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، جب سے حکومت نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے ناپختہ اور غیر حساس قدم اٹھائے ہیں، ان سرمایہ کاروں نے بازار سے اپنا پیسہ کھینچنے میں اور مزید تیزی دکھائی ہے۔

ان حالات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 12 ستمبر 2017 کو ’پرائس ٹو ایکویٹی ریشیو‘ 26.26 پہنچ گیا، اس کا مطلب ہے کہ جلد بازار میں بڑا جھٹکا لگنے والا ہے۔ پرائس ٹو ایکویٹی ریشیو کا مطلب یہ ہے کہ کسی کمپنی کے چار سے پانچ سال کے دوران شیئر کی اوسط قیمت اور اس سے ہونے والے فائدہ کو ظاہر کرے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ بازار کو لگنے والا جھٹکا کتنے زور کا ہوگا اور اس سے گھریلو سرمایہ کاروں پر کتنا وسیع اثر پڑے گا؟

اصل میں غیر ملکی تنظیمی سرمایہ کاروں کے ہندوستان میں پیسہ لگانے کی کہانی کافی پہلے سے تیار ہو رہی تھی۔ 2013 کے آخری مہینوں میں جیسے جیسے یہ طے ہونے لگا کہ اقتدار میں تبدیلی ہونا تقریباً یقینی ہے، ان سرمایہ کاروں نے ستمبر 2013 سے مئی 2014 کے درمیان تقریباً 81 ہزار کروڑ ہندوستانی بازاروں میں لگائے۔ گزشتہ سہ ماہی میں ترقی کی رفتار 5.7 پہنچ جانے کے بعد ان سرمایہ کاروں میں بے چینی ہے اور انھوں نے اپنا پیسہ واپس کھینچنا شروع کر دیا۔

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو مودی حکومت کے تین سال کے دور اقتدار میں غیر ملکی تنظیمی سرمایہ کاروں نے کل 37,91,259.13 کروڑ روپے کی خریداری کی، لیکن ان سرمایہ کاروں نے اس دوران 37,92,064.70 کروڑ کی فروختگی بھی کی ہے۔ یعنی گزشتہ 41 مہینوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 805.57 کروڑ روپے کی فروختگی کی۔ گویا کہ زبردست غیر ملکی سرمایہ کاری کا جملہ اور بلبلہ پہلے دن سے ہی پھوٹ چکا تھا۔ اس دوران ہندوستانی بازاروں میں خوب تیزی رہی، لیکن اس کا سہرا گھریلو سرمایہ کاروں کو دیا جانا چاہیے۔ منی کنٹرول ڈاٹ کام پر دستیاب ایک ڈاٹا کے مطابق گھریلو سرمایہ کاروں نے اس مدت میں 1,46,764.65 کروڑ روپے کی خریداری کی۔

ڈاٹا سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں یعنی ایف آئی آئی نے 22 ستمبر تک 36,767.03 کروڑ روپے ہندوستانی بازاروں سے نکال لیے۔ اگر سوموار (25 ستمبر 2017) کی بازار کی گراوٹ کو دیکھیں تو یہ اعداد و شمار کچھ اور زیادہ ہو سکتا ہے۔ بازاروں کی گراوٹ اور بھی زبردست ہوتی اگر گھریلو سرمایہ کاروں نے نومبر 2016 سے اب تک 79,007.83 کروڑ روپے بازار میں نہیں لگائے ہوتے۔

ان 41 مہینوں میں جہاں ایف آئی آئی لایعنی ہی ثابت ہوئے ہیں، گھریلو سرمایہ کاروں نے بازار میں کافی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ڈاٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایف آئی آئی کی سرمایہ کاری کا اعداد و شمار لال نظر آتا ہے، گھریلو سرمایہ کاروں نے تقریباً 1,46,764.65 کروڑ کی سرمایہ کاری کر کے بازار کو مضبوطی دینے کا کام کیا۔ اتنا ہی نہیں، جولائی میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد جہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پیسہ نکالنے میں تیزی دکھائی وہیں گھریلوی سرمایہ کاروں نے اس دوران 30,000 کروڑ تک کی سرمایہ کاری کی۔

ان اٹھا پٹخ کے سبب بازار میں بہت غیر یقینی کا ماحول بنا رہا اور پی ای یعنی پرائس ٹو اَرننگ ریشیو ایسی سطح پر پہنچ گیا جہاں اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ 12 ستمبر کو پی ای 25.26 کے ریکارڈ سطح پر تھا جو 22 ستمبر کو کاروبار ختم ہونے تک 25.95 پہنچ گیا۔ اس اعداد و شمار کے منفی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 8 جنوری 2008 کو پی ای 28.29 تھا، یہ وہ وقت تھا جب بازار 20 ہزار پوائنٹ کجے آس پاس تھا اور آئندہ ایک سال میں یہ گر کر 9000 پوائنٹس پر آ گیا تھا۔ اس دوران ایف آئی آئی نے بازار سے قریب ایک لاکھ کروڑ روپے واپس کھینچ لیے تھے۔

بازار میں رفتار پھر سے ہچکولے کھا رہی ہے اور اس میں جلد ہی گراوٹ کا رخ نظر آ سکتا ہے۔ سوموار کو سنسیکس اور نفٹی دونوں ہی تقریباً ایک فیصد کی گراوٹ کے ساتھ ہی بند ہوئے۔ لیکن یہ ایک دن کے کاروبار کی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے کہ بازار میں یہ کریکشن یا گراوٹ کا رخ کب ہوگا اور گھریلو سرمایہ کاروں پر اس کے کتنے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔