آر بی آئی کی شرح سود، بے قابو مہنگائی اور برے دنوں کی دستک، کیا ملک خوفناک بھنور میں پھنس چکا ہے؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے آر بی آئی نے شرح سود میں اضافہ کیا ہے، کیا اس سے مارکیٹ میں طلب اور رسد کے توازن میں بہتری آئے گی؟ کیا لوگ کم چیزیں خریدیں گے؟ کیا بے روزگاری میں اضافہ ہوگا؟

تصویر بشکریہ نوجیون
تصویر بشکریہ نوجیون
user

تسلیم خان

نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا نے بدھ کے روز اچانک شرح سود میں اضافے کا اعلان کر دیا، جبکہ آر بی آئی کو تقریباً ایک ماہ بعد یعنی 8 جون کو ہونے والی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ میں اس معاملے پر فیصلہ لینا تھا۔ آر بی آئی نے جو اشارہ دیا وہ یہ ہے کہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ یہ فیصلے ظاہر کرتا ہے اب پانی سر سے اوپر چلا گیا تھا۔ خود آر بی آئی نے کہا کہ افراط زر میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ تقریباً 7 فیصد تک چلی گئی ہے۔ آر بی آئی نے ریپو ریٹ، یعنی وہ شرح جس پر بینک کو قرض حاصل ہوتا ہے، اس میں 40 بیسس پوائنٹ یعنی 0.4 فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ وہیں، سی آر آر میں 50 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سی آر آر وہ شرح ہے جسے بینکوں کو اپنے نقد ذخائر کی اوسط پر ریزرو بینک کے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی بینکوں کے پاس پیسے کم ہوں گے اور انہیں آر بی آئی سے قرض لینے کے لیے زیادہ سود ادا کرنا پڑے گا۔

کیا یہ آنے والے برے دنوں کی علامت ہے؟

یوں تو روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی بڑھی ہے۔ ہندوستان میں بھی پچھلے کئی مہینوں سے حالات خراب ہیں۔ ایندھن سے لے کر کھانے پینے کی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کیسے قابو میں آئے گی؟ دراصل آر بی آئی مارکیٹ میں نقدی کو کم کرنا چاہتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سسٹم میں، تاکہ لوگوں کے ہاتھ میں پیسے کم ہوں اور وہ کم خرچ کریں۔ معیشت کے مطابق منطق یہ ہے کہ اگر لوگ کم خرچ کریں گے تو مانگ کم ہوگی۔ اگر مانگ کم ہوگی تو قیمتیں کم ہوں گی یعنی چیزیں سستی ہوں گی۔ چیزیں سستی ہوں گی تو مہنگائی قابو میں آئے گی۔


کیا یہ آنے والے برے دنوں کی علامت ہے؟

لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کا ہماری جی ڈی پی پر کیا اثر پڑے گا۔ اگر یہ نظام لمبے عرصے تک چلتا رہا تو جی ڈی پی کی شرح یا ترقی کی رفتار کم ہو جائے گی اور کساد بازاری کا خطرہ مزید گہرا ہو جائے گا۔ اس لیے نظام کو اس طرح بنانا ہوگا کہ مارکیٹ میں طلب کے مطابق چیزوں کی سپلائی جاری رہے، تاکہ مہنگائی بھی قابو میں رہے اور معیشت بھی بری طرح متاثر نہ ہو۔

لیکن روس یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں تیل کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ممالک میں تیل کی درآمد مہنگی ہو گئی۔ اگر تیل مہنگا ہوتا ہے تو یقیناً اس سے ٹرانسپورٹ پر اثر پڑتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان بھیجنے میں زیادہ خرچ آتا ہے۔ اس سے لاگت بڑھتی ہی ہے۔

اس کا اثر ہمہ جہت ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ مہنگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر اشیائے ضروریہ یعنی عام صارف کو درکار تمام اشیا مہنگی ہو جائیں گی، اسی طرح خام مال کو فیکٹریوں تک پہنچانے کی لاگت بھی بڑھ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والی ہر شے کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے سے ہر شخص کی حقیقی آمدنی کم ہو جائے گی۔ حقیقی آمدنی میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز پہلے 100 روپے فی کلو ملتی تھی اور اب 150 روپے فی کلو مل رہی ہے تو اس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو اس شخص کو دوسرے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ دیگر اخراجات میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے طریقے یعنی طرز زندگی کو بدلنا پڑے گا۔


اب اگر آپ اپنے طرز زندگی میں اخراجات میں کمی نہیں کرتے ہیں تو آپ کو قرض لینا پڑے گا۔ اور قرضوں کو آر بی آئی نے مہنگا کر دیا ہے، جس کے جواب میں بینکوں نے بھی اپنی شرح سود میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کو دوہرا نقصان ہوگا۔

اس سے نمٹنے کے لیے آپ کو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ ملازم ہیں، تو آپ کو ہر سال ملنے والی تنخواہ میں اضافہ اوسط مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا چاہیے، تب ہی آپ کو کچھ راحت مل سکتی ہے لیکن جب برے دن آنے والے ہیں تو کمپنیاں تنخواہوں میں اضافہ کیوں کریں گی۔

اس کے علاوہ اگر آپ ایک تاجر ہیں تو آپ کو اس کے بڑھنے اور برقرار رکھنے کے لیے بھی زیادہ رقم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے آپ بینک سے قرض لینا چاہیں گے جو مہنگا ہو گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کی پروڈکٹ کی پیداواری لاگت یعنی اسے بنانے کی لاگت بڑھ جائے گی اور سامان مہنگا ہو جائے گا۔ مہنگائی پہلے ہی بڑھ رہی ہے اس لیے اشیا کی طلب کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈیمانڈ کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو آپ کا سامان کیسے فروخت ہوگا؟ اس خدشے میں آپ مارکیٹ میں کم طلب کی توقع میں پیداوار کم کر دیں گے۔ ایسا کرنے سے مال کم فروخت ہوگا۔ اگر مال کم فروخت ہوگا تو ظاہر ہے آپ کی کمائی پہلے سے کم ہوگی۔ کمائی کم ہونے پر نقصان کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ نقصانات کو کم کرنے کے لیے آپ لوگوں کو نوکری سے برطرف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی طرح دوسرے لوگ بھی ایسا کریں گے تو بے روزگاری بڑھے گی۔


اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بے روزگاری میں اضافے سے عوام میں مایوسی پیدا ہوگی۔ نوجوانوں میں غصہ بڑھے گا۔ امن و امان خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومتوں کے لیے صورتحال کو سنبھالنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کو نوکریاں دینا ہوں گی، نوکریاں دینی ہوں گی، پیسہ عوام کے ہاتھ میں دینا ہوگا لیکن لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ زیادہ ہونا اور چیزوں کی کم فراہمی مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ آر بی آئی نے شرح سود میں اضافہ کر کے اس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔

یہ ایک قسم کا خوفناک بھنور ہے اور اس سے بچنے کے لیے یا بچانے کے لیے حکومتیں کوششیں کر رہی ہیں۔ فوری حل یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ کو ختم کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں تیل اور دیگر اشیا کی سپلائی دوبارہ پٹری پر آ جائے۔ طلب اور رسد میں توازن رہے گا تو مہنگائی قابو میں آئے گی لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوگا یا نہیں، فی الحال اس کا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔