آئی ایم ایف نے ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو میں کی تخفیف، 2023 میں کئی ممالک میں کساد بازاری کی پیشن گوئی

آئی ایم ایف نے مالی سال 2022-23 کے لیے ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو کو 7.4 فیصد سے گھٹا کر 6.8 فیصد کر دیا ہے۔ جولائی میں آئی ایم ایف نے ہندوستان کی شرح نمو کو 8.2 فیصد سے گھٹا کر 7.4 فیصد کر دیا تھا

آئی ایم ایف / سوشل میڈیا
آئی ایم ایف / سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

واشنگٹن: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو میں دوسری مرتبہ تخفیف کی ہے۔ آئی ایم ایف نے اسے مالی سال 2022-23 کے لیے 7.4 فیصد سے کم کر کے 6.8 فیصد کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ ’’بدترین دور کا آنا ابھی باقی ہے اور سال 2023 میں بہت سے لوگوں کے لیے کساد بازاری جیسے حالات پیدا ہوں گے۔‘‘ خیال رہے کہ جولائی میں آئی ایم ایف نے ہندوستان کی شرح نمو میں 0.8 فیصد کی کمی کی تھی اور اسے 8.2 فیصد سے کم کر کے 7.4 فیصد کر دیا تھا۔

آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ عالمی عوامل اور سخت مالیاتی پالیسی کے اثرات کے باعث ہندوستان کی اقتصادی ترقی کی شرح کم رہ سکتی ہے۔ تاہم یہ آر بی آئی کے تخمینہ سے قدرے زیادہ ہے۔ مرکزی بینک نے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7.2 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ اگلے مالی سال یعنی 2023-24 میں ہندوستانی معیشت 6.1 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا امکان ہے۔


آئی ایم ایف نے جولائی میں اپریل 2022 میں شروع ہونے والے مالی سال میں ہندوستان کے لئے مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) میں 7.4 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ پیشن گوئی رواں سال جنوری میں لگائے گئے 8.2 فیصد کے اندازے سے کم تھی۔ مالی سال 2021-22 (اپریل 2021 تا مارچ 2022) میں ہندوستان میں 8.7 فیصد کی شرح سے اقتصادی ترقی ہوئی۔

آئی ایم ایف سے پہلے، فیچ ریٹنگز نے بھی حال ہی میں رواں مالی سال کے لیے ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو کی پیشن گوئی کو 7.8 فیصد کے پچھلے تخمینہ سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا تھا۔ فیچ نے کہا کہ اب اسے توقع ہے کہ جون میں 7.8 فیصد کی ترقی کی پیشن گوئی کے مقابلے 2022-23 میں ہندوستانی معیشت کی شرح نمو 7 فیصد رہے گی۔ تنظیم نے کہا کہ اگلے مالی سال میں بھی ترقی کی شرح اب 6.7 فیصد رہنے کا امکان ہے جس کا تخمینہ پہلے 7.4 فیصد تھا۔


آئی ایم ایف نے منگل کے روز جاری اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ اپریل 2022 میں عالمی اقتصادی منظر نامہ میں جس خطرے کا خدشہ تھا وہ اب حقیقت بن رہا ہے۔ یہ وبا پر قابو پانے کے لیے چین میں نافذ 'لاک ڈاؤن'، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں سختی، عالمی مالیاتی صورتحال کے سخت ہونے اور یوکرین جنگ کے اثرات کا نتیجہ ہے۔

آئی ایم ایف کے معاشی مشیر اور تحقیقی ڈائریکٹر پیئر اولیور گوریچنس نے کہا، "عالمی معیشت کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کی تشکیل تین طاقتور قوتوں پر پڑنے والے اثرات سے وقوعہ پذیر ہوئی، یوکرین پر روسی حملہ، مسلسل اور وسیع پیمانے پر مہنگائی کا دباؤ اور چین میں کساد بازاری سبب معاش زندگی پر خطرہ۔‘‘ آئی ایم ایف نے کہا، ’’2023 میں عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ بحران کا شکار ہوگا اور تین بڑی معیشتیں امریکہ، یورپی یونین اور چین تعطل کا شکار رہیں گی۔ مختصر یہ کہ بدترین دور کا آنا ابھی باقی ہے اور سال 2023 بہت سے لوگوں کے لیے کساد بازاری جیسا ثابت ہوگا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔