عالمی معیشت کس طرح منہدم ہو رہی!
یورپ سے لے کر ایشیا اور افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جسے پوری طرح جدوجہد سے پاک کہا جا سکے، ایسے حالات میں بھی اقوام متحدہ تماشہ دیکھ رہا ہے

علامتی تصویر / اے آئی
میں نے حال کے ہفتوں میں جو سب سے زیادہ جھنجھوڑنے والے چند کارٹون دیکھے ہیں، ان میں سے ایک لندن کی گمنام اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ اس میں ایک ٹھیلا دکھایا گیا ہے جس میں اقوام متحدہ کے مشہور نیویارک ہیڈکوارٹر کا ٹوٹا پھوٹا نمونہ رکھا ہوا تھا اور وہ ٹھیلا کھڑی پہاڑی سے نیچے کی طرف تیزی سے لڑھکتا جا رہا تھا، جبکہ اس کے پاس ہی ہوڈی پہنے ایک شخص اسے دیکھتے ہوئے بدبدا رہا تھا: ’...اور ختم ہو گئی عالمی معیشت!‘
ایسے وقت میں جب مایوسی کے کہرے میں لپٹے مستقبل کی طرف بڑھتے ہوئے ہم اس سال کو الوداع کر رہے ہیں، اس کارٹون نے دنیا کے موجودہ حالات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ غزہ اور یوکرین کے ’موت والے علاقے‘ تاریک عالمی منظرنامہ کی پہچان بن گئے ہیں، لیکن دنیا کے تقریباً ہر حصے میں کئی آتش فشاں جیسی جنگ کے مراکز ابھر آئے ہیں جہاں کبھی بھی آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے لے کر ایشیا تک، افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جسے پوری طرح جنگ سے پاک کہا جا سکے۔ ایسے حالات میں بین الاقوامی طبقہ (اقوام متحدہ اور اس کے 193 رکن ممالک) بے حس تماشائی بن کر تماشہ دیکھ رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بعد جنوب مشرقی ایشیا بحیرۂ جنوبی چین میں بڑھتی کشیدگی کے درمیان بین الاقوامی مقابلے کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے۔ تائیوان معاملہ پر امریکہ اور چین میں کشیدگی کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور کوریائی جزیرہ نما میں لگاتار کشیدگی والے حالات بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب نئی سرد جنگ سے متاثر ہے اور جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس کی شدت میں کافی اضافہ کا اندازہ ہے۔ حال ہی میں دونوں فریقین کی بیان بازی اور بھی تلخ ہو گئی ہے۔ گزشتہ مہینے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے نیوکلیائی اسلحہ استعمال کرنے سے جڑی پالیسیوں کو کچھ ڈھیلا کر دیا ہے اور روس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ 33 ماہ پرانی جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنے والے مغربی ملک روس کے خلاف جنگ کو فروغ دے رہے ہیں۔
بھلے ہی ٹرمپ-پوتن کا یکسر تال میل امریکہ-روس کے رشتوں میں کچھ بہتری لانے میں مدد کر دے، لیکن بین الاقوامی رشتوں پر چھائی کشیدگی برقرار رہے گی۔ امیگریشن، ٹریڈ فیس اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق چین، یورپ، کینیڈا، ایران اور لاطینی امریکہ کے بیشتر حصوں کے تئیں ٹرمپ کے ٹکراؤ والے نظریے کی وجہ سے حالات مزید بدتر ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود جدوجہد کو ختم کرنے کی کوششوں کی جگہ اقوام متحدہ کے کچھ اہم اراکین سرگرم طریقے سے اس میں فریق بن کر نفرت اور تقسیم کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ ملک پہلے یا دوسرے فریق کی حمایت کر رہے ہیں۔
اسرائیل-فلسطین جنگ اور روس-یوکرین جنگ دونوں بہت پہلے ہی ختم ہو چکے ہوتے (یا یوں کہیں کہ شاید شروع بھی نہیں ہوئے ہوتے) اگر اقوام متحدہ کو بین الاقوامی امن کے محافظ کی شکل میں اس کا کردار نبھانے دیا گیا ہوتا۔
آج کی حقیقت یہی ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ عالمی جنگ کے بعد کے اصول پر مبنی عالمی نظام کا منظم زوال ہے، جسے پرامن طریقوں سے جنگ کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ دو عالمی جنگوں سے ہوئے نقصانات کے بعد دنیا اس بات پر متفق ہوئی تھی کہ اب کوئی قتل عام نہیں ہوگا، کوئی اجتماعی سزا نہیں ہوگی، اپنے دفاع میں بھی طاقت کا غیر متناسب استعمال نہیں ہوگا۔ اس طرح اقوام متحدہ کو رکن ممالک اور دنیا کی اخلاقی دانشمندی کی شکل میں کام کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے 5 ویٹو پاور والے مستقل اراکین (امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور فرانس) کو اقوام متحدہ چارٹر کے سخت عمل درآمد اور عالمی امن بنائے رکھنے، حقوق انسانی کی حفاظت کرنے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے اس کے ہدف کو یقینی بنانے کی خصوصی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن ان پانچوں نے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کو مذاق بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ اسے اور اس کی مختلف ایجنسیوں کا استعمال اپنے خود کے سیاسی مفادات کو فروغ دینے کے لیے کیا ہے اور نیوٹرل امپائر کی شکل میں اپنے مقرر کردار کو کھونٹی پر ٹانگ دیا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران خاص طور پر امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کر کے جنگوں کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی اقوام متحدہ کی کوششوں کو ناکام ہی کیا ہے۔ واشنگٹن اور اس کے ساتھیوں نے اکثر اپنے مفادات کے لیے اقوام متحدہ کو دھوکہ دیا۔ یاد رکھا جانا چاہیے کہ کس طرح انھوں نے اقوام متحدہ کو عراق پر ناجائز حملہ کے لیے مہر لگانے کے لیے دھوکہ دہی کا سہارا لیا۔ بعد میں ثابت بھی ہوا کہ یہ سب اس فرضی خفیہ جانکاری کی بنیاد پر کیا گیا کہ صدام حسین کے پاس نیوکلیائی اسلحے تھے اور وہ مغرب کے خلاف ان کا استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے ان قراردادوں کو ویٹو کرنا جو ان کے اہداف کو پورا کرنے میں مددگار نہیں، اور جب یونیسکو، ڈبلیو ایچ او، یو این ایچ سی آر اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کو اپنی خواہش کے مطابق موڑنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان اداروں کو کمزور کرنا عام بات ہو گئی ہے۔
حقیقت میں کوئی بھی کثیر فریقی ادارہ تقسیم کرنے والی سفارتی طاقت کے تباہ کن اثرات سے بچ نہیں پائی ہے۔ ان میں بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک جیسے ادارے بھی شامل ہیں، جن کا بین الاقوامی معاشی تعاون کو فروغ دے کر گلوبلائزیشن کو بہتر بنانے میں اہم کردار ہے۔ بین الاقوامی اداروں کو کمزور کرنے میں امریکہ کے کردار کے بارے میں اپنے جائزہ میں یوروپین سنٹر فار پالیٹیکل اکونومی نے کہا ہے کہ اپنے تسلط کے لیے کسی بھی نام نہاد خطرے کے تئیں امریکہ کا رد عمل ’عالمی نظام کو خطرے میں ڈال‘ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او کا کمزور ہونا اور ڈبلیو ایچ او سے امریکہ کا ہٹنا اس کی ’سب سے واضح مثالیں ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں‘۔
اس معاملے میں سب سے تازہ نقصان بین الاقوامی جرائم عدالت (آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کا ہے جس نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع گیلنٹ پر ’جنگی جرائم‘ کے الزام میں فرد جرم لگایا ہے۔ امریکہ نے عدالت پر یہودی مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے فیصلے کو خارج کر دیا۔ حالانکہ گزشتہ سال اسی بائڈن انتظامیہ نے یوکرین میں اپنے کاموں کو لے کر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف آئی سی سی کے گرفتاری وارنٹ کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا، اور رکن ممالک سے عدالت کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی گزارش کی تھی۔
موجودہ حالات پر کوئی بھی سنجیدہ گفتگو غزہ اور یوکرین کی بات کیے بغیر پوری نہیں ہوگی، کیونکہ یہ اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح سے حریف عالمی طاقتیں جنگ کے بعد کی عالمی معیشت کو کمزور کر رہی ہیں۔ غزہ میں کوئی بھی جگہ اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں۔ فلسطینیوں نے بم حملہ سے خود کو بچانے کی جدوجہد کے درمیان مہلوکین کو شمار کرنا بند کر دیا۔ تل ابیب کی ظالم فوجی مشین کے ذریعہ ملبہ میں تبدیل غزہ اب مردوں کی زمین جیسا نظر آتا ہے اور اسے نام نہاد ’بین الاقوامی طبقہ‘ کی سفارتی اور اخلاقی نامردی کی سب سے شرمناک مثالوں میں سے ایک کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس درمیان اپنے مغربی ساتھیوں سے بھر بھر کر اسلحہ حاصل کرنے والا یوکرین 2022 میں روس کے ذریعہ شروع کیے گئے حملے کے بعد سے اپنی خود مختاری کے لیے وجود کی جنگ میں الجھا ہوا ہے، جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ روس نے یوکرینی علاقہ کے تقریباً پانچویں حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور صدر زیلنسکی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ صلح کا کوئی راستہ نکالیں، کیونکہ اگر روس کو مزید اکسایا گیا تو غالباً وہ نیوکلیائی اسلحوں کے استعمال سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی امن کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ جنگ بندی سمجھوتہ دونوں فریقین کے ذریعہ مستقل خلاف ورزی کے سبب بے معنی ثابت ہو رہا ہے۔
پچھلی بار بین الاقوامی طبقہ 1992 میں ایک ساتھ آیا تھا جب اقوام متحدہ اور ناٹو نے بوسنیا میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم طریقے سے مداخلت کی تھی۔ تب سے سب کچھ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ 2020 میں اقوام متحدہ کے قیام کی 75ویں یوم تاسیس پر ادارہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گٹیرس نے رکن ممالک کو یاد دلایا کہ ’کثیر فریقی حکومت کے اثردار نظام کی عدم موجودگی میں بکھراؤ اور پولرائزیشن (100 سال قبل) پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنا‘۔
اگر اس بیان کا مقصد برسراقتدار طبقات کو یہ یاد دلانا تھا کہ جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے ہیں وہ اسے دہرانے کی غلطی کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بات ان سنی کر دی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔