نوٹ بندی: کتنا مہنگا پڑا یہ پاگل پن!

موہن گروسوامی

National Herald
National Herald
user

قومی آوازبیورو

2011 کے ’پیو ریسرچ آف سروے‘ کے مطابق 1955 یا اس سے پہلے پیدا ہوئے 95 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہ ٹھیک سے یاد کر کے بتا سکتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں تھے یا کیا کر رہے تھے جب کینیڈی کا قتل ہوا تھا۔ اس حادثہ کا گہرا اثر ہمارے ذہن پر ایسا پڑتا ہے کہ جب بھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس دن کی اصل حالت نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ 31 اکتوبر 1984 کو ہوا اندرا گاندھی کا قتل بھی کچھ ایسا ہی حادثہ تھا۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جو اس وقت زندہ ہیں، اس دن کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو یاد کر سکتے ہیں۔ آج بھی میں اس دن کے ہر واقعہ اور بات چیت کو یاد کر سکتا ہوں۔ گزشتہ سال 8 نومبر2016 کو ہوئی نوٹ بندی کا دن بھی ایسا ہی دن بن گیا ہے جو زیادہ تر لوگوں کے ذہن میں آج بھی زندہ ہے۔

جب میں نے سنا کہ وزیر اعظم ملک کو خطاب کرنے جا رہے ہیں، اس وقت میں کچھ دوستوں کے ساتھ سکندر آباد میں اپنے گھر پر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دوست اور میں خود ٹی وی کے آس پاس اکٹھے ہو گئے اور نریندر مودی کو نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے سنا، جس میں انھوں نے کہا ’’بھائیو اور بہنوں، کالا دھن اور بدعنوانی ختم کرنے کے لیے ہم نے طے کیا ہے کہ موجودہ وقت میں چل رہے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ آج 8 نومبر 2016 کی نصف شب سے بند ہو جائیں گے۔‘‘ میرے پاس جتنے بھی 500 اور 1000 روپے کے نوٹ تھے وہ اس دن میری جیب میں ہی تھے۔ نوٹ زیادہ تو نہیں تھے لیکن یہ بات پریشان کرنے والی تھی کہ وہ اب کسی کام کے نہیں رہ گئے ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اب میں اپنے سیونگ اکاؤنٹ سے ہر ہفتہ صرف 4000 روپے نکال سکتا ہوں۔ خود کو نہ صرف ننگا اور بے بس بلکہ بری طرح اپنے کو بے عزت محسوس کیا۔

اسی شام ہمارے ساتھ عشائیہ پر موجود ایک شخص ایسے بھی تھے جن کے بارے میں ہمیں پتہ تھا کہ ان کے پاس بہت پیسہ ہے۔ لیکن وہ تھوڑا سا بھی پریشان نہیں نظر آ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس سے نقصان ہوگا؟ انھوں نے کہا ’’آپ سے ذرا بھی زیادہ نہیں۔‘‘ پھر انھوں نے کہا ’’کچھ چیزیں میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ ویسے لوگ جن کے پاس بہت سارا دو نمبر کا پیسہ ہے، بغیر بے وقوف بنے کبھی امیر نہیں بنتے۔ جس دولت پر انکم ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی گئی ہوتی ہے اسے ہمیشہ ملک کے معاشی نظام کی پہنچ سے باہر رکھا جاتا ہے۔‘‘ مجھے پتہ تھا کہ یہ بات درست تھی، کیونکہ لگاتار ریسرچ سے سامنے آیا ہے کہ ہر سال غیر اعلانیہ آمدنی کے تقریباً نصف کا سرمایہ ملکیت تیار کرنے میں لگایا جاتا ہے اور تقریباً 44 سے 46 فیصد کے نصف کی سرمایہ کاری سونے اور زیورات میں اور بقیہ کو غیر قانونی طور پر بیرون ممالک بھیج دیا جاتا ہے۔ صرف 4 سے 6 فیصد ہی نقد کی شکل میں رکھا جاتا ہے۔

حکومت نے اچانک سے نوٹ بندی کر کے سسٹم میں موجود نقد کا تقریباً 87 فیصد اور 15.44 لاکھ کروڑ روپے کی جان لے لی۔ وزیر اعظم نے ملک کو ’کالے دھن‘ سے نجات دلانے کے لیے جب اس نوٹ بندی کا اعلان کیا تو سارے ملک نے اس کا استقبال کیا۔ یہاں کالے دھن سے ان کا مطلب ویسی آمدنی اور مالی لین دین سے تھا جس کے لیے ملک کو ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی گئی ہو۔ نوٹ بندی کے لیے حکومت نے ایک اور وجہ یہ بتائی کہ وہ نقلی نوٹوں کے جال اور دہشت گردی کی آبیاری کرنے والے نظام کو ختم کرنا چاہتی تھی۔

بلاشبہ 1000 روپے کے نقلی نوٹوں کے ساتھ ضرور کوئی مسئلہ تھا۔ 15-2014 میں 22 فیصد کی شرح سے بڑھ کر ان کی تعداد 6 لاکھ پہنچ گئی۔ 16-2015 میں پکڑے گئے نقلی نوٹوں میں 100 کے 35 فیصد، 500 کے 415 اور بقیہ 1000 کے نوٹ تھے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس سال اپریل میں 500 کے 1646 کروڑ اور 100 کے 1642 کروڑ نوٹ بازار میں تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے مقابلے نقلی نوٹ بہت کم تعداد میں تھے اور معیشت کو کچھ خاص نقصان بھی نہیں پہنچا رہے تھے۔ بڑے نوٹوں کو منظم طریقے سے بدلنے کا کوئی بہتر طریقہ تلاش کیا جا سکتا تھا۔ اب آر بی آئی نے رپورٹ دی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں مالی سال 2017 میں نقلی نوٹوں کی پہچان 20.4 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ اضافہ کے باوجود نقلی نوٹوں کی کل قیمت 42 کروڑ روپے کے برابر رہا۔ تو کیا یہ نوٹ بندی کی مصیبت مول لینے لائق تھی۔

یہ واضح ہے کہ حکومت ایسے کسی بڑے ’اصلاح‘ کے لیے تیار نہیں تھی۔ جب نوٹوں کی کمی ہو گئی تو آر بی آئی اور بینکوں کے پاس دوسری قیمت کے اتنے نوٹ نہیں تھے جن سے کسی طرح بھی کمی کو دور کیا جائے۔ پورے ملک کا مالی نظام بدحال ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کروڑوں لوگوں کو تکلیف جھیلنی پڑی جو روز کماتے او رکھاتے تھے یا جلد خراب ہو جانے والے سامانوں کی تجارت کرتے تھے۔ کسانوں کو بھی کافی پریشانی اٹھانی پڑی جنھیں اشیائے خوردنی، پھلوں اور سبزیوں کی روپائی و کٹائی کے لیے سرمایہ کاری کرنی تھی۔

بڑے نوٹوں کی جگہ نئے نوٹ لانے میں آر بی آئی کو کئی مہینے لگ گئے۔ تب تک افرا تفری مچ چکی تھی۔ اس طویل افرا تفری کا معاشی نقصان تو ہونا ہی تھا۔ سیاسی لیڈر سے بھی زیادہ ایک بڑے ماہر معیشت کی شکل میں پہچانے جانے والے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہ حساب لگایا تھا کہ اس سے ملک کا جی ڈی پی 2 فیصد تک گر جائے گا۔ اب وہ درست ثابت ہو چکے ہیں۔ جی ڈی پی کے سرکاری اعداد و شمار اسے پختہ کر رہے ہیں۔ نئے 500 اور 2000 کے نوٹوں میں خرچ ہوئے تقریباً 36 ہزار کروڑ کے علاوہ، جی ڈی پی میں ہوئے نقصان کی قیمت 3 لاکھ کروڑ روپے ہوں گے۔ اب یہ پیسے کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ یہ پوری طرح ایک پاگل پن تھا۔

اب دیکھیے کہ اس سے کتنا بڑا نقصان ہوا۔ ہندوستان میں تقریباً 45 کروڑ لوگ مزدوری طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے صرف 7 فیصد منظم سیکٹر میں ہیں۔ منظم سیکٹر میں 3 کروڑ 5 لاکھ لوگوں میں سے 2 کروڑ 40 لاکھ لوگ حکومت یا حکومت کے ذریعہ چلائی جا رہی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔ بقیہ لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ 41.5 کروڑ لوگوں کو غیر منظم سیکٹر میں روزگار میسر ہے جس میں تقریباً نصف زراعت سے منسلک ہیں اور 10-10 فیصد کنسٹرکشن، چھوٹی صنعتوں اور خوردہ کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ عموماً روز کمانے اور کھانے والے لوگ ہیں اور ان کی آمدنی حکومت کے ذریعہ طے کم از کم بھتہ سے بھی کم ہے۔ بھلے ہی ملککی معیشت پوری طرح نہیں رکی ہو لیکن کروڑوں گھروں میں نوٹ بندی کے فوراً بعد چولہا نہیں جل رہا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ روزانہ مزدوری کمانے والوں کو کام کے پورے تو چھوڑیے، نصف پیسے بھی نہیں مل رہے تھے۔ اور جب انھیں پرانے نوٹوں میں پیسے ملے بھی اور بینک میں گھس بھی گئے تو بینک کے پاس انھیں بدلنے کے لیے نئے نوٹ نہیں تھے۔

حکومت نے 500 اور 1000 کے نوٹوں میں موجود جس مبینہ ’کالے دھن‘ کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، وہ نوٹ دراصل روز مرہ کے لین دین میں استعمال ہونے والے پیسے تھے۔ حکومت جس پیسے کو تلاش کر رہی تھی وہ تاجروں، لیڈروں اور نوکر شاہوں کے پاس جمع اس پیسے کا ایک چھوٹا حصہ تھا۔ لیکن اسے سامنے لانے کی بے چینی میں ھکومت نے پورے عوام کو مشکل میں ڈال دیا۔

اور ذرا اسے دیکھیے، براہ راست بیرون ملک سرمایہ کاری (گزشتہ سال تقریباً 44 کروڑ ڈالر) کا کم از کم 55 فیصد حصہ ہندوستانیوں کا پیسہ ہے جو ٹیکس چوری سے گھوم پھر کر معاشی نظام میں شامل ہو گیا۔ کیا حکومت اب ان ای سی بی سے پوچھے گی کہ اس پیسے کا ذریعہ کیا ہے؟

اس معاشی حادثہ کا اندازہ لگانے میں ناکام وزیر اعظم نے ایک نیا گیت گانا شروع کر دیا۔ انھوں نے چیخنا شروع کیا کہ وہ غریبوں کی ایک بہت بڑی آبادی کے لیے لڑ رہے ہیں جنھیں اعلیٰ طبقہ کے ذریعہ دہائیوں سے لوٹا گیا ہے۔ انھوں نے اعلیٰ طبقات کی بے عزتی کی اور ایک طبقاتی جنگ کی پہلی گولی چلا دی۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ان کے سب سے بڑے حامی وہ لوگ ہیں جن کے پاس سب سے زیادہ ’کالا دھن‘ ہے۔

نوٹ بندی کے بعد کے دنوں میں مودی حکومت ایک بے مثال فائدہ کی بات کرنے لگی۔ ایسی امید کی جا رہی تھی کہ بہت سارا نقد ’کالا دھن‘ بینکوں میں واپس نہیں آئے گا۔ انھیں امید تھی کہ تقریباً ایک تہائی نوٹ واپس نہیں آئیں گے جو تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے ہوتے۔ اس پیسے سے سرکاری بینکوں کے نقصان کی بھرپائی کی جا سکتی تھی جو بینکوں کے ذریعہ دیے گئے قرض کی وجہ سے ہوا تھا۔ اکتوبر میں جاری آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 98.96 فیصد 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ بینکوں میں واپس آ گئے۔ ممنوعہ نوٹوں میں تقریباً 15.28 لاکھ روپے کے نوٹ آر بی آئی کو مل گئے۔ 15.44 لاکھ روپے کے غیر قانونی نوٹ 8 نومبر 2016 تک بازار میں تھے۔ اس سے واضح ہے کہ نوٹ بندی کا اصل مقصد ہی ناکام ہو گیا اور یہ پورا قدم معاشی نظام کے ساتھ ایک بھیانک چھیڑ چھاڑ سے کم نہیں تھا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Nov 2017, 8:44 AM