شیئر بازار میں مچا کہرام، روپیہ ہوا دھڑام، غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بھگدڑ

بی ایس ای-این ایس ای غوطے کھا رہے ہیں، سنسیکس زمیں دوز ہو رہا ہے، گھریلو تیل کی قیمتیں راکٹ بنی ہوئی ہیں۔ ان ساری چوٹوں سے لہولہان سرمایہ کاروں میں ہنگامہ برپا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بے حال عام آدمی، بے بس سرمایہ کار اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی حکومت... یہ ہے نیو انڈیا جس میں عام آدمی کی جیب میں مہنگے تیل-گیس سے سراخ ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کی گاڑھی کمائی حکومت کے نکمے پن کی وجہ سے جل کر خاک ہو رہی ہے اور حکومت کی ساکھ سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ روپیہ اندرون زمین چلا جا رہا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وعدے ارادے اور جملے نیک فال ثابت نہیں ہو رہے اور وہ اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔

اس سب کی وجہ سے ملک کی معیشت زوال پذیر نظر آ رہی ہے۔ حکومت نہ تو روپے کو زوال پذیر ہونے سے روک پا رہی ہے اور نہ ہی شیئر بازاروں میں ڈوبتے سرمایہ کاروں کی کمائی کو۔ نتیجہ یہ ہے کہ آتش فشاں نظر آ رہے خام تیل میں ملک کی معیشت پر پھپھولے نظر آنے لگے ہیں۔ بی ایس ای-این ایس ای غوطے کھا رہے ہیں، سنسیکس زمیں دوز ہو رہا ہے، گھریلو تیل کی قیمتیں راکٹ بنی ہوئی ہیں۔ ان ساری چوٹوں سے لہولہان سرمایہ کاروں میں ہنگامہ برپا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی محنت کی کمائی برباد ہو رہی ہے۔

شیئر بازار آخر کیوں زمیں دوز ہو گیا؟

شیئر بازار میں کہرام مچا ہوا ہے۔ جمعرات کو شیئر بازار نے جو غوطہ کھایا تو سرمایہ کاروں کے تقریباً 1.50 لاکھ کروڑ روپے خاک ہو گئے۔ کاروبار ختم ہوتے ہوتے بی ایس ای کا سنسیکس 800 پوائنٹ اور این ایس ای کا نفٹی 280 پوائنٹ سے زیادہ ٹوٹ گیا۔ شیئر بازار میں تقریباً 2.5 فیصد گراوٹ کا مطلب ہے کہ سرمایہ کاروں کو ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے کا چونا لگ جانا۔ غور طلب ہے کہ صرف ستمبر ماہ میں بازار کی گراوٹ کے سبب سرمایہ کاروں کو تقریباً 13.57 لاکھ کروڑ کا خسارہ ہو چکا ہے۔

شیئر بازار میں گراوٹ کی جو اہم وجوہات ہیں ان میں سب سے زیادہ نقصان دہ ہے روپے کی کمزوری۔ بدھ کو روپیہ تاریخی گراوٹ کے ساتھ 73.70 روپے کے قریب پہنچ گیا۔ روپیہ میں گراوٹ کا سیدھا مطلب ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ہندوستانی بازار میں سرمایہ فائدے کا سودا نہیں رہا۔ اس کے سبب سرمایہ کار تیزی سے بکوالی کرتے ہوئے اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ صرف بدھ یعنی 3 اکتوبر کو ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے تقریباً 1500 کروڑ روپے کی بکوالی کی۔ بازار کو اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بکوالی میں مزید تیزی آئے گی۔

شیئر بازار میں مچا کہرام، روپیہ ہوا دھڑام، غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بھگدڑ

ان دو وجوہات کے علاوہ آئی ایل اینڈ ایف ایس بھی ایسی وجہ ہے جو ملکی سرمایہ کاروں کو بازار آنے سے روک رہا ہے۔ آئی ایل اینڈ ایف ایس معاملے میں بینکوں اور ایل آئی سی پر منڈلا رہے خطرات کے ساتھ ہی سرکاری پیمانوں کی غیر یقینی سے بھی ملکی سرمایہ کار بازار آنے میں جھجک محسوس کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی خام تیل کی قیمتوں میں تیزی کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اُچھال کو ملکی معیشت کے لیے سب سے بڑا سر درد مانا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کے جذبات پر اثر پڑتا ہے بلکہ حکومت کا حساب کتاب بھی پوری طرح سے گڑبڑا جاتا ہے۔

کل ملا کر جمعرات کو بامبے اسٹاک ایکسچینج کا سنسیکس 806 پوائنٹ کی گراوٹ کے ساتھ 35169 اور نیشنل اسٹاک ایکسچینج کا نفٹی 259 پوائنٹ کی گراوٹ کے ساتھ 10599 پر بند ہوا۔ کاروبار کے آخری گھنٹے میں حکومت کی طرف سے پٹرول-ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کا الٹا ہی اثر بازار پر پڑا۔ حکومت نے اس 2.50 فی لیٹر کی تخفیف میں سے ایک روپے کا بوجھ تیل کمپنیوں پر ڈالا ہے۔ اس خبر کے آتے ہی تیل کمپنیوں کے شیئر دھڑام ہو گئے۔ سب سے زیادہ 15 فیصد کی گراوٹ ہندوستان پٹرولیم کے شیئروں میں ہوئی جب کہ انڈین آئل اور بھارت پٹرولیم کو 10-10 فیصد کا نقصان ہوا۔ او این جی سی کے شیئر بھی ذیلی قیمتوں پر بند ہوئے۔

زوال پذیر روپیہ اور شرح سود بڑھنے کا اندیشہ

ملک کی کرنسی جس تیزی کے ساتھ گر رہی ہے اس سے روز نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ جمعرات کو تو روپیہ ایک ڈالر کے مقابلےتقریباً 74 روپے تک پہنچ گیا تھا جب اس نے ریکارڈ 73.81 کا نمبر چھوا۔ حالانکہ بعد میں اس میں کچھ تیزی آئی اور بند ہوتے ہوتے 73.63 روپے پر پہنچا۔ غور طلب ہے کہ اس سال اب تک روپے میں تقریباً 14 فیصد کی کمزوری درج کی جا چکی ہے۔

روپے میں کمزوری کے سبب ریزرو بینک پر شرح سود بڑھانے کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور اسی اندیشہ میں بازار میں ہنگامہ برپا ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Oct 2018, 7:07 PM
/* */