سرکاری ملازمین کے مہنگائی بھتہ میں کٹوتی کی ضرورت نہیں تھی: ڈاکٹر منموہن

سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے مرکزی حکومت کے ملازمین کے مہنگائی بھتے میں کٹوتی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وقت میں کٹوتی کرنے کی نہیں بلکہ لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے بعد سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی سرکاری ملازمین کے الاؤنسز میں کٹوتی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ’’سرکاری ملازمین کے الاؤنس میں کمی نہیں کی جانی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے مشکل وقت میں بھی مرکزی عملہ اور فوجیوں پر اس طرح کا فیصلہ مسلط کرنا ضروری نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر سنگھ نے ہفتہ کو جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور حکومت کو مہنگائی بھتے اورمہنگائی راحت میں کٹوتی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس سے قبل پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی اور سابق وزیرخزانہ پی چدمبرم بھی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ بحران کے وقت میں لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے بھتوں میں کٹوتی کرنا مناسب نہیں ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے حکومت کے پاس اگر پیسہ نہیں تھا تو اسے ملازمین کی جیبوں پر قینچی چلانے کی بجائے بلیٹ ٹرین جیسے پروجیکٹوں کو روکنے اور اپنے اخراجات میں کمی کرنے کا فیصلہ لینا چاہئے تھا۔


غورطلب ہے کہ مارچ کے مہینے میں مودی حکومت نے مرکزی ملازمین اور پنشنرز کے لئے مہنگائی الاؤنس میں چار فیصد اضافہ کیا تھا، لیکن اب کورونا بحران کی وجہ سے اس اضافے کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے تقریباً 48 لاکھ مرکزی ملازمین اور 65 لاکھ پنشنرز کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ تاہم، کورونا بحران سے دو چار ملک کے خزانے کو اس فیصلہ سے راحت مل سکتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس فیصلے سے حکومتوں کو محصولات کی وصولی کی قلت سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

ڈی اے کسے کہتے ہیں؟

مرکزی ملازمین کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مہنگائی الاؤنس (ڈی اے) دیا جاتا ہے۔ مہنگائی بھتے کا حساب بیسک سیلری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت سال میں دو مرتبہ ڈی اے میں ترمیم کرتی ہے۔ پہلی ترمیم جنوری سے جون تک کی مدت کے لئے، جبکہ دوسری جولائی سے دسمبر تک کے لئے موثر ہوتی ہے۔ اس کا مقصد مہنگائی میں اضافے کی تلافی کرنا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */