معاشی بحران کی وجہ سے 3 سال میں ڈوب سکتے ہیں بینکوں کے 2.54 لاکھ کروڑ

آئندہ 3 سالوں میں بینکوں کے 2.54 لاکھ کروڑ روپے ڈوب سکتے ہیں۔ دراصل بینکوں سے لیے گئے کارپوریٹ قرض میں سے 4 فیصد پر کمپنیاں ڈیفالٹ ہو سکتی ہیں۔ یہ 4 فیصد 2.54 لاکھ کروڑ کے برابر ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں معاشی بحران لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس معاشی سستی کی وجہ سے لوگوں کو روزگار، مہنگائی اور کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ معاشی بحران کی وجہ سے بینکوں کے سامنے بھی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ایسا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسے ہی حالات رہے تو آنے والے وقت میں بینکوں کو 2.54 لاکھ کروڑ روپے کا بڑا خسارہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ 3 سالوں میں معاشی سرگرمیوں میں سدھار نہیں ہوتا ہے تو کارپوریٹ گھرانوں پر بینکوں کے کل بقایہ کا 4 فیصد حصہ ڈوب سکتا ہے۔

انڈیا ریٹنگز اینڈ ریسرچ کے ذریعہ سرفہرست 500 نجی سیکٹر کی کمپنیوں پر کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ وہ اپنے قرض میں سے تقریباً 10.5 لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے میں لڑکھڑا سکتی ہیں۔ ریٹنگ فرم نے اپنے کلائنٹس کے لیے یہ سروے کیا ہے۔ ان 500 بھاری قرض سے دبی کمپنیوں پر 39.28 لاکھ کروڑ روپے کا بقایہ قرض ہے۔ اس میں سے موجودہ ڈیفالٹ کی رقم 7.35 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ بینکنگ سسٹم میں کل کارپوریٹ قرض تقریباً 64 لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔


انڈیا ریٹنگ اینڈ ریسرچ کے اینالسٹ ارندم سوم نے اکونومک ٹائمز سے بات چیت میں بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کارپوریٹ گھرانے فنڈ سے پروڈکٹیویٹی نہیں بڑھا پا رہے ہیں۔ سسٹم میں پروڈکٹیو اسیٹس میں تیزی سے کمی آئی ہے اور اس کے سبب بینکوں سے حاصل کیا گیا فنڈ خسارے میں جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کارپوریٹ گورنینس اسٹینڈرڈ بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔

اس وقت جو سیکٹر سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے، ان میں آئرن اینڈ اسٹیل، ریزیڈنشیل رئیل اسٹیٹ، انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اینڈ کنسٹرکشن (ای پی سی)، روایتی پاور جنریشن اور ٹیلی کام شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مالی سال 21-2020 سے 22-2021 میں اوسط حقیقی جی ڈی پی کی شرح ترقی 4.5 فیصد تک گرتی ہے تو بینکوں کے کل قرض میں ڈوبنے والا حصہ 159 بیس پوائنٹ بڑھ کر 5.59 فیصد تک جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔