قرض گھوٹالہ معاملہ: بینک آف بڑودہ نے ’آرکام‘ اور انیل امبانی کے قرض کھاتے کو فراڈ قرار دیا

بینک آف بڑودہ نے آرکام اور انیل امبانی کے قرض کھاتے کو فراڈ قرار دیا۔ اس سے قبل ایس بی آئی اور بینک آف انڈیا بھی یہی کر چکے ہیں۔ ای ڈی 17 ہزار کروڑ کے مبینہ لون فراڈ کی تحقیقات کر رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

انیل امبانی کی مشکلات میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اور بینک آف انڈیا کے بعد اب بینک آف بڑودہ نے بھی دیوالیہ ہو چکی ریلائنس کمیونی کیشنز (آرکام) اور اس کے سابق ڈائریکٹر انیل امبانی کے قرض کھاتے کو فراڈ قرار دے دیا ہے۔ ’این ڈی ٹی وی انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق، بینک نے یہ اطلاع جمعرات کو ایکسچینج فائلنگ کے ذریعے دی۔

واضح رہے کہ جون 2025 میں ایس بی آئی نے آرکام کے لون اکاؤنٹ کو فراڈ قرار دیا تھا، جب کہ 24 اگست کو بینک آف انڈیا نے بھی یہی قدم اٹھایا تھا۔ اس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2016 میں فنڈز کو غلط طریقے سے منتقل کیا گیا تھا۔

آرکام نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ بینک آف بڑودہ جن قرضوں کی بات کر رہا ہے، وہ اس دور کے ہیں جب کمپنی کارپوریٹ ان سولونسی ریزولوشن پروسیس (دوالیہ کا عمل) میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ کمپنی کے مطابق یہ تمام معاملے ان سولونسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (آئی بی سی) کے تحت طے کیے جائیں گے، چاہے وہ ریزولوشن پلان کے ذریعے ہوں یا لکوڈیشن کے ذریعے۔

کمپنی نے مزید کہا کہ قرض دہندگان کی کمیٹی پہلے ہی ریزولوشن پلان کو منظور کر چکی ہے اور اب اسے نیشنل کمپنی لا ٹریبیونل (این سی ایل ٹی) کی حتمی منظوری کا انتظار ہے۔ فی الحال کمپنی ریزولوشن پروفیشنل کے کنٹرول میں ہے اور انیل امبانی اس کے ڈائریکٹر نہیں ہیں۔ آرکام نے اس معاملے پر قانونی مشاورت لینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔


انیل امبانی پہلے سے ہی ای ڈی کی جانچ کے دائرے میں ہیں۔ ای ڈی ریلائنس گروپ کی کمپنیوں سے جڑے تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے کے مبینہ لون فراڈ کی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ ملک کے اب تک کے سب سے بڑے کارپوریٹ لون فراڈ کیسز میں سے ایک مانا جا رہا ہے۔

ای ڈی نے گزشتہ ماہ انیل امبانی کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا اور مختلف بینکوں سے تفصیلات بھی مانگی تھیں کہ جب ریلائنس ہاؤسنگ فنانس، ریلائنس کمیونی کیشنز اور ریلائنس کمرشل فنانس کو قرض فراہم کیے گئے تو کس طرح کی جانچ اور عمل کیا گیا تھا۔ ان بینکوں میں ایس بی آئی، ایکسس بینک، آئی سی آئی سی آئی، ایچ ڈی ایف سی، یوکو بینک اور پنجاب اینڈ سندھ بینک شامل ہیں۔

آرکام کا کہنا ہے کہ چونکہ معاملہ آئی بی سی کے تحت آتا ہے، اس لیے لون فراڈ کا حتمی فیصلہ بھی ریزولوشن پلان یا لکوڈیشن کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ اس پورے معاملے نے نہ صرف انیل امبانی کی مشکلات بڑھا دی ہیں بلکہ بینکاری نظام اور کارپوریٹ قرض کی جانچ پڑتال کے طریقوں پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔