سی بی آئی کو نصیحت دینے والے جیٹلی کی منشا آخر ہے کیا؟

بینکنگ اور سی ای او طبقہ طاقتوار ہوتا ہے اور حکومت تک اس کی براہ راست رسائی ہوتی ہے، جیٹلی کے بلاگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خوف زدہ ہے اور افسران سے کہا جا رہا ہے کہ ان سے دور رہو، انہیں تنگ مت کرو۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

آکار پٹیل

سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے سی بی آئی کو ایک اہم صلاح دی ہے۔ سی بی آئی وزارت عظمیٰ کے ماتحت ہوتی ہے اور جیٹلی اس بات سے ناراض ہیں کہ اس نے آئی سی آئی سی آئی بینک کی سابق ایم ڈی اور سی ای او کے خلاف ایف آئی آر درج کیوں کی۔ جیٹلی نے اسے انویسٹی گیٹیو ایڈوینچرزم یعنی جرأت کا نام دیا ہے۔ ان کی نظر میں یہ ایک پیشہ ورانہ تفتیش نہیں ہے۔

جیٹلی کا کہنا ہے کہ انویسٹی گیٹیو ایڈوینچرزم کے تحت جال بہت بڑا کر دیا گیا ہے کہ اس میں ان لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے جنہوں نے کسی جرم کی نیت سے کام نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف قیاس کی بنیاد پر لوگوں کو بغیر کسی ثبوت کے پھنسایا جا رہا ہے۔

جیٹلی کی رائے میں ’’یہ جرأت میڈیا میں لیک ہوتی ہے اور لوگوں کی عزت کو زک پہنچتی ہے۔ نتیجہ میں کسی کو مجرم قرار تو نہیں دیا جاتا الٹے تنقید برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی لوگوں کا کیرئر بھی تباہ ہو جارہا ہے۔‘‘ جیٹلی کی تشویش یہی ہے کہ سی بی آئی کی سخت کارروائی کے سبب یہ سب ہو رہا ہے اور اس پر ہم سب کو فکر مند ہونا چاہیے۔

ارون جیٹلی اس وقت امریکہ میں ہیں اور کسی مہلک مرض کا علاج کرا رہے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں لیکن انہوں نے جو کچھ کہا اس پر وہ سنجیدہ ہیں یا نہیں اس پر بھی شبہ ہے۔

لیکن پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ آخر جیٹلی ناراض ہیں کس بات پر؟ حقیقت میں وہ ایک بات تو صحیح کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت قانونی جرأت کا کام کر رہی ہے۔ مثلاً میری تنظیم پر جیٹلی نے غداری ملک کا الزام لگایا اور مقدمہ درج کر لیا گیا لیکن مقدمہ کے دو سال بعد عدالت نے اسے خارج کر دیا۔ لیکن اس عمل میں وقت اور قومی خزانے کی بربادی ہوئی۔ یہ مقدمہ دائر ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

خبر ہے کہ آئی سی آئی سی بینک کے معاملہ میں سی بی آئی بینک کی سابق سربراہ اور ان کے شوہر کے ایک صنعتی گھرانے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔ اس میں بینک کے موجودہ سی ای او سندیپ بخشی، سابق کارگزار ڈائریکٹر کے راجکمار، گولڈمین سیکس انڈیا کے چیئرمین سنجوئے چٹرجی، آئی سی آئی سی آئی پروڈینشل لائف کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس ایکس کنن، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی سی ای او زرین دارو والا، ٹاٹا کیپٹل کے سربراہ راجیو سبروال، نیو ڈیولپمنٹ بینک کے صدر کے وی کامتھ اور ٹاٹا کیپٹل کے اہم مشیر ہومی خسرو خان بھی شامل ہیں۔ سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’قرض کی منظوری دینے والی کمیٹی کے ان سینئر افسران کے خلاف بھی جانچ ہونی چاہیے۔‘

بینکنگ اور سی ای او طبقہ طاقتوار ہوتا ہے اور حکومت تک اس کی براہ راست رسائی ہوتی ہے، جیٹلی کے بلاگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خوف زدہ ہے اور افسران سے کہا جا رہا ہے کہ ان سے دور رہو، انہیں تنگ مت کرو۔ دراصل یہ طبقہ مودی اور جیٹلی کے صنعت کار دوستوں کی شیبہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اس لئے اسپتال میں ہونے کے باوجود جیٹلی کو اس سے تکلیف پہنچی۔ ان کے بقیہ پیغام میں لکھا ہے: 

’’پروفیشنل انویسٹی گیشن میں صحیح اور قانونی طور سے مصدقہ ثبوتوں کی بنیاد پر اصل ملزمان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے میں قیاسوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نجی رنجش یا بدعنوانی نہیں ہوتی۔ اس میں قصورواروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور بے قصوروں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اس کے تحت الزام ثابت کیا جاتا ہے اور عوامی مفاد کے حق میں کام کیا جاتا ہے۔‘‘

اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے ملک میں الزامات ثابت کرنے کی شرح اتنی کم کیوں ہے، کیونکہ اس کے پیچھے جرأت اور دل میں دبی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور پشہ ورانہ رویہ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ میں جیٹلی جی سے پوری طرح متفق ہوں لیکن جیٹلی کا مسئلہ یہ ہے کہ خود ان کی وزارت خزانہ ان حدود کو پار کرتی رہتی ہے اور میں یہ بات اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔

یا تو انہیں معلوم نہیں کہ ان کی وزارت میں کیا چل رہا ہے یا پھر جیٹلی جو کچھ کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ ملک میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے کی قیمت کیا ہے اور میں کوئی شکایت بھی نہیں کر رہا ہوں۔

لیکن ایسی تنظیم کے پیچھے پڑنا اور اسے بدنام کرنا جسے اپنے کام کے لئے امن کا نوبل انعام حاصل ہو چکا ہے، جیٹلی جی کو صحیح لگتا ہے لیکن ان کے لئے اہم تو ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس ہے جسے لے کو وہ فکر مند نظر آ رہے ہیں۔ اس لئے جب سی بی آئی نے آئی سی آئی سی پر شکنجہ کسا تو انہوں نے نصیحت دینا شروع کر دی۔ انہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں سرمایہ تب آتا ہے جب وہاں قانون کی حکمرانی ہو نہ کہ صرف کروڑ پتیوں کے لئے قانون۔

ہاں، جوابدہی اور ذمہ داری دونوں ضروری ہے اور حکومت کو سُورما بننے سے بچنا چاہیے اور یہ اصول ہر ملک کے شہری کے لئے ہونا چاہیے نہ کہ صرف ان لوگوں کے لئے جن کی براہ راست پہنچ وزیر خزانہ تک ہے خواہ وہ اس وقت بستر پر ہی کیوں نہ پڑے ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */