تبصرۂ کتب: جدید اردو صحافت کا معمار ’قومی آواز‘، مصنف سہیل انجم... (تبصرہ نگار– معصوم مراد آبادی)

آج کے دور میں جتنے بھی بڑے صحافی ہمیں نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر ’قومی آواز‘ سے وابستہ رہے، ایک نام برادرم سہیل انجم کا بھی ہے جنھوں نے ’قومی آواز‘کے دہلی ایڈیشن کے ساتھ طویل مسافت طے کی۔

کتاب کا سرورق
کتاب کا سرورق
user

معصوم مرادآبادی

شمالی ہند کی اردو صحافت میں روزنامہ ’قومی آواز‘ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے اخبارکو حاصل نہیں ہے۔ ’قومی آواز‘ صرف ایک اخبار ہی نہیں تھا بلکہ اپنے زمانے میں صحافت اور ادب کا ایک مکمل اسکول تھا۔ اس دور کے تمام بڑے ادیب اور صحافی ’قومی آواز‘ ہی کے رہین منت ہیں۔ ’قومی آواز‘ نہ صرف اعلیٰ اور معیاری صحافت کا علمبردار تھا بلکہ اس نے زبان وبیان کے بھی نئے معیار طے کئے اور اردو صحافت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ’قومی آواز‘ صحیح معنوں میں ادب اور صحافت کا ایک مکمل دبستان تھا اور جب تک جاری رہا قارئین کے ذہنوں پر اس کا سحر قائم رہا۔ یوں تو اس کا اجراء لکھنؤ سے ہوا تھا اور حیات اللہ انصاری جیسے بڑے ادیب و صحافی کے ہاتھوں میں اس کی کمان تھی جنھوں نے اس کے لیے نیا اسلوب اور بیانیہ ایجاد کیا۔ ان کی ایجاد کی ہوئی صحافتی اصطلاحات آج بھی اردو صحافت میں ایک معیار کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی اخبار نے صحافت کے اعلیٰ اصولوں کو برتنے کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ و معانی کا جہاں آباد کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مدیروں کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف رہا ہے۔ لکھنؤ کے بعد جب اس کی اشاعت دہلی سے شروع ہوئی تو یہاں بھی اس سے اپنے زمانے کے منجھے ہوئے صحافی وابستہ ہوئے اور انھوں نے اپنی جفاکشی سے اس اخبار کو نگینہ بنا دیا۔

آج کے دور میں جتنے بھی بڑے صحافی ہمیں نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر ’قومی آواز‘ سے وابستہ رہے ہیں۔ ان میں ایک نام برادرم سہیل انجم کا بھی ہے جنھوں نے ’قومی آواز‘ کے دہلی ایڈیشن کے ساتھ طویل مسافت طے کی اور وہاں اردو صحافت کے اسرار و رموز سیکھے۔ ’قومی آواز‘ سے اپنی اس وابستگی کا قرض انھوں نے حال ہی میں ایک کتاب کی صورت میں ادا کیا ہے جو اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے ایک اچھوتی پیشکش کہی جا سکتی ہے۔ کتاب کا نام ہے ’جدید اردو صحافت کا معمار: قومی آواز‘۔ اس کتاب میں انھوں نے ’قومی آواز‘ سے متعلق تمام منتشر مواد کو یکجا کرنے کا ہی کام نہیں کیا بلکہ اس میں کام کرچکے بعض اہم صحافیوں سے تازہ مضامین بھی قلم بند کیے اور کروائے۔ افسوس اس بات کا ہے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک شمالی ہند کی اردو صحافت میں سکۂ رائج الوقت سمجھے جانے والے اس عہد سازاخبار پر نہ تو کسی دانش گاہ میں ابھی تک کوئی ریسرچ ہوئی ہے اور نہ ہی کسی نے اس کی تفصیلات جمع کرنے کی کوشش کی۔ اس معاملے میں معروف صحافی سہیل انجم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے شوق وجنون کی بدولت ’قومی آواز‘ سے متعلق تمام مواد کو قارئین کے لیے اکٹھا کر دیا۔ ان کی یہ کتاب اردو صحافت کی تحقیق کے باب میں ایک منفرد اضافہ کا درجہ رکھتی ہے۔


مجھے یاد ہے کہ 1980میں جب دہلی سے ’قومی آواز‘ کا اجراء ہوا تو اس کی تقریب بہادرشاہ ظفر مارگ پر واقع ہیرالڈ ہاؤس کے باہر ایک شامیانے میں منعقد ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے میں اس تقریب کا عینی گواہ ہوں۔ آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی اس تقریب میں بڑے شوق سے شریک ہوئی تھیں کیونکہ ’قومی آواز‘ کو ان کے والد پنڈت جواہر لعل نہرو نے ہی 1945میں لکھنؤ سے شروع کیا تھا۔ ’قومی آواز دہلی میں فوٹو آفسیٹ پر شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار تھا، اس لیے اسے قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کیونکہ اس زمانے میں دہلی سے تمام اردو روزنامے لیتھو پرشائع ہو رہے تھے۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ اس کی اشاعت اس بہادرشاہ ظفر مارگ سے شروع ہوئی تھی جہاں اس زمانے میں تمام بڑے انگریزی اخبارات مثلاً ’ٹائمزآف انڈیا‘، انڈین ایکسپریس‘، ’پائینیر‘اور ’پیٹریاٹ ‘وغیرہ کے دفاتر تھے۔ اس لیے اس کی الگ ہی شان تھی۔

’قومی آواز‘ کے ادارتی عملہ اور شعبۂ کتابت میں میرے کئی کرم فرما کام کرتے تھے۔ اس لیے میں اکثر شام کو ’ قومی آواز‘ کے دفتر پہنچ جاتا تھا۔ مقصد تھا کچھ سیکھنے کا۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں صحافیوں کی ایک پوری کہکشاں موجود تھی۔ موہن چراغی، محمد سلیمان صابر، فرحت احساس، چندربھان خیال، منصور آغا، نورجہاں ثروت، ظفر زاہدی، شاہد پرویز، مولانا رحمت اللہ فاروقی اور سب سے بڑھ کر ہیڈ کاتب جلال الدین اسلم۔ جن کے پاس میں گھنٹوں بیٹھتا اور روزنامہ اخبار کی صورت گری کے گن سیکھا کرتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’قومی آواز‘ کے عملہ میں کچھ لوگ جہاں بڑی محنت اور مشقت کے عادی تھے تو کچھ ایسے بھی تھے جو حاضری لگا کر سیروتفریح کے لیے نکل جاتے تھے یا اپنا وقت کینٹین اور یونین بازی میں صرف کرتے تھے۔ ’دہلی سے ’قومی آواز‘ کی اشاعت 2008 میں بند ہوئی اور اس کا سب سے زیادہ صدمہ ان لوگوں کو ہوا جو سنجیدہ اور معیاری صحافت کے رسیا تھے اور جن کی ہرصبح ’قومی آواز‘ کے اداریوں اور مراسلوں سے شروع ہوتی تھی۔ کسی اخبار کی زندگی میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اس کے مراسلوں کو بھی وہی اہمیت حاصل رہی ہو جو اس کے اداریوں کی تھی۔ یہ دراصل ’قومی آواز‘ سے اس کے قارئین کی گہری دلچسپی کا مظہر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قارئین شہ سرخی سے پہلے مراسلات کے کالم پر نظر ڈالتے تھے۔ عصری موضوعات کے علاوہ ادبی اور نیم ادبی مباحث کا جتنا بڑا ذخیرہ ’ قومی آواز‘ کے مراسلوں میں موجود ہے، اتنا شاید ہی کسی اور اخبار میں ملے۔ ’قومی آواز‘ بنیادی طور پر ادب وصحافت کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اسی لیے اس کے سنڈے ایڈیشن (ضمیمہ) کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور اخبار کو حاصل نہیں ہوسکی۔ عام طور پر ادیب اور شاعر اخباروں میں چھپنا کسر شان سمجھتے ہیں، لیکن ’قومی آواز‘ کا معاملہ یہ تھا کہ اپنے عہد کے تمام بڑے ادیب اور شاعر اس میں شائع ہونا اپنے لیے فخر کی بات سمجھتے تھے۔ خود ’قومی آواز‘ لکھنؤ کے عملہ میں حیات اللہ انصاری اور عشرت علی صدیقی کے علاوہ احمد جمال پاشا، عثمان غنی، منظرسلیم ، قیصر تمکین، حسن واصف عثمانی، عابد سہیل، احمد ابراہیم علوی اور حسین امین جیسے ادیب وصحافی شامل تھے۔


زیر تبصرہ کتاب کو پروفیسراخترالواسع، جلال الدین اسلم اور سہیل وحید کی تمہیدوں کے بعد سہیل انجم نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے جو چار ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلے باب میں انھوں نے’ قومی آواز‘ کے دہلی اڈیشن سے وابستہ اپنی یادوں کو خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔ اس کے بعد شعبۂ ادارت کے تمام ارکان کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ’قومی آواز‘ دہلی کے ایڈیٹر موہن چراغی کی زبانی اس کی داستان شائع کی ہے۔ اس باب میں شعبۂ ادارت سے وابستہ رہ چکے اشہر ہاشمی کا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ دوسرے باب میں ’قومی آواز‘ کے لکھنؤ ایڈیشن کی کہانی بیان کی گئی ہے اور اس میں عشرت علی صدیقی، عابد سہیل، قیصر تمکین اور قطب اللہ کے مضامین ہیں جن میں انھوں نے قومی آواز کے صحافتی معیار، اصول وضوابط، ادبی خدمات اور ’قومی آواز‘ خاندان کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ قطب اللہ نے ’ قومی آواز‘ کو صحافت کی یونیورسٹی قرار دے کر اچھی بحث کی ہے۔ باب سوم میں ’قومی آواز‘ کے بمبئی، پٹنہ اور سری نگر ایڈیشنوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں سعید حمید، ریحان غنی اور موہن چراغی کے مضامین ہیں۔ باب چہارم میں قومی آواز کے کچھ سرکردہ مدیروں اور صحافیوں پر مضامین ہیں۔ آخر میں ’قومی آواز‘ ویب سائٹ کا تذکرہ ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب صحافت کے فن سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خاص تحفہ ہے۔ طباعت اور کمپوزنگ عمدہ ہے۔ 288 صفحات کی یہ کتاب 400 روپے میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی میں دستیاب ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔