تبصرہ: سر سید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرز فکر

زیر تبصرہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ سبھی ابواب کو کئی موزوں و ذیلی عنوانات کے تحت نہایت مربوط اورمنظم طریقے سے پیش کیا ہے۔ تحریر کا ایسا مربوط طریقہ کار قاری کو آسانی فراہم کرتا ہے۔

سر سید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرز فکر کا سرورق
سر سید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرز فکر کا سرورق
user

قومی آوازبیورو

از پروفیسر افتخار عالم خان
  • پبلشر - ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
  • کل صفحات - 164
  • قیمت - 180 روپے
  • آئی ایس بی این - 978-93-88356-48-0

کرنل گراہم کی سوانح سرسید (1885)، حالی کی "حیات جاوید" اور مولوی محمد امام الدین گجراتی کی تالیف کردہ سرسید کی تقریریں اور چند مضامین کی دو الگ الگ جلدیں (1901) شائع ہونے کے بعد لمبے عرصے تکسر سید پر کوئی خاص بڑا تحقیقی کام سامنے نہیں آیا۔ اس کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں، جن میں مذہبی اختلاف اور دینی علما کے ایک بڑے طبقے میں سر سید کی مخالفت شاید ایک بڑی وجہ رہی ہوگی۔

1960 کی دہائی اور اس کے بعد (اسماعیل پانی پتی نے جب سرسید کےمقالات و مکتوبات کی جلدیں شائع کیں تو) پھر سرسید اور علیگڑھ تحریک پر تحقیق کے کاموں میں ایک نئی رفتار دکھنے لگی۔ حفیظ ملک اور ڈیوڈ لیلیویلڈ کی کتابوں اور تحقیقی مضامین کے بعد اصغر عباس کی تصنیفیں اور شان محمد کی تالیفیں آنے کے بعد سرسید مطالعات میں اہم اضافے ہونے لگے۔ اس کے باوجود، سر سید کی مکمل، جامع، تنقیدی سوانح عمری اب تک نہیں آسکی ہے۔ اسے ایک المیہ کہا جا سکتا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسیٹی کے بانی اور روح رواں مدن موہن مالویہ کے ساتھ بھی کم و بیش ایسا ہی رویہ رہا ہے۔ جگن ناتھ مشرا نے 2015 میں مالویہ کی ایک بایو گرافی شائع کی ہے لیکن انہوں نے بھی مالویہ کے بعض پہلوؤں سے صرف نظر کیا ہے، مثلاً ان کی اقتصادی فکر، اور ان کا اپنی حیات کی آخری دو دہائیوں میں ہندو مہا سبھا سے تقریباً مکمل کنارہ کشی، جیسے اہم پہلوؤں سے ان کی تصنیف کا لا تعلق ہونا۔

تبصرہ: سر سید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرز فکر

سرسید مطالعات کے ایک بڑے حصے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر اردو تصنیفات میں معروضی تحقیق کےبجاۓ عقیدت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

پروفیسر افتخار عالم خان نے اپنی ضعیفی اور علالت کے باوجود پچھلے 18 برسوں میں تقریباً دس کتابیں اس موضوع پر شائع کی ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب بڑی حد تک اسی سیریز کا ایک حصہ کہی جا سکتی ہے۔ ان سبھی کتابوں میں ان کی نثر کی سلاست، روانی، موزونیت، استدلال، اور برجستگی میں بتدریج پختگی آئی ہے۔ ان سبھی تحقیقات میں ان کی تحقیقی معروضیت بالکل نمایاں ہے۔ اور معروف تاریخ نویسوں کے لیۓ قابل رشک بھی۔ کیوںکہ مصنف سائنس اور میوزیولوجی کے میدان سے تعلق رکھنے کے باوجود تاریخ نگاری کے تمام تحقیقی اصولوں کا بھر پور خیال رکھتےہیں۔ پرائمری ماخذ و اسناد کو ڈھونڈنا، ان کا باریک بینی سے مطالعہ اور تجزیہ کرنا اور سکنڈری تاریخی تصنیفات سے تنقیدی انگیجمینٹ کرنا، ایسے تمام پہلوؤں سے وابستگی کا پختہ ثبوت پیش کرتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ سبھی ابواب کو کئی موزوں و ذیلی عنوانات کے تحت نہایت مربوط اورمنظم طریقے سے پیش کیا ہے۔ تحریر کا ایسا مربوط طریقہ کار قاری کو آسانی فراہم کرتا ہے اور قاری کی دلچسپی بہ خوبی بنی رہتی ہے۔

تعلیم نسواں، سیکولرزم، نیشنلزم، کانگریس کی مخالفت، جیسے مسائل پر سرسید پر عائد الزامات پر بحث کرتے ہوۓ سرسید کے مضامین کے لمبے اقتسابات پیش کیے گئے ہیں۔ سرسید سے متعلق کانگریس کے روح رواں اے۔او۔ ہیوم (1829-1912) کے آکلینڈ کولوین (1838-1908) سے مراسلات کا اقتباس دے کر افتخار صاحب نے کئی انجانے مگر نہایت ہی اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اور اس طرح کئی مفروضوں کی تردید بھی کی ہے۔ سرسید کی ان تحریروں کے اقتباسات بھی پیش کیے گئے ہیں جن میں سرسید نے انگریزوں سے وفا داری کے بجاۓ ان کی نسل پرستی پر مبنی ہندوستانیوں کے تئیں نفرت، تحقیر، تذلیل، اور یہاں تک کہ کئی خدمت گزاروں اور دیگرعملوں کے قتل کے خلاف برجستہ وضاحتی مضامین لکھ کر احتجاج درج کیے ہیں۔

سرسید کے ایسے مضامین کو پبلک ڈومین میں لانا اور آج کے زمانے میں ان کی قرات کار آمد ہوگا۔

ماحولیات، زراعتی اصلاحات، و دیہی ترقی سے متعلق سرسید کی تحریروں اوراس سلسلے میں ان کے عملی تجربوں پر پورا ایک باب پیش کیا ہے جو شاید ان کی کتاب، "سر سید اور ہندوستانی نظام زراعت" (2014) کا اختصار ہوگا۔ ان پہلوؤں پر سرسید نے اپنی کتاب، "اسباب بغاوت ہند" (1858) میں بھی تفصیل سے وضاحت کی تھی لیکن تاریخ نویسوں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیا۔

سرسید نے کئی طویل مضامین جدید تکنیک اور ٹیکنالوجی کی مدد سے زراعت پر بھی لکھے تھے جن کا حوالہ اور اقتباس زیر تبصرہ کتاب میں ملتا ہے۔ تجرباتی زراعت کے لئے انسٹی ٹیوٹ گارڈن بھی قائم کیا تھا۔ زرعی لگان کا گراں ہونا اور زمین کو ذاتی ملکیت قرار دینے سے جو نا ہمواری اور استحصال کا نظام سامنے آیا اس کے خلاف بھی بر جستہ تحریروں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ "ریل کے سبب درختوں کی تباہی" ، "قدیم نظام دیہی ہندوستان"، "ہمارے رؤسا اور قومی بھلائی"، "دیہات کی صفائی"، جیسے مضامین کے علاوہ پینے کا صاف پانی، گوبر کی کھاد کا استعمال، اور آبپاشی کی سہولتوں کی دستیابی کی باتیں بھی زیر بحث لائی تھی۔

آج ملک میں جس قدر فرقہ وارانہ نفرت اور تعصب کا ماحول بنا ہوا ہے، اس کے پیش نظر یہ ضروری جان پڑتا ہے کہ سرسید کے ایسے مضامین کو نہ صرف پھر سے شائع کرکے عوام کے درمیان لایا جاۓ بلکہ اس کو دیو ناگری رسم خط کے علاوہ انگریزی اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں ان کے تراجم بھی پیش کیے جائیں۔ افتخارصاحب نے سر سید کے کئی ایسے مضامین کا حوالہ دیا ہے، جن میں چند مضامین کے عنوانات یوں ہیں: "اہل ملک اور ترقی و تربیت"۔ اس میں سر سید نے قدیم ہندوستان کے سائنسی تحقیقات و ایجادات کی تفصیل دیتے ہوۓ اہل ملک کو ان پر بجا طور پر فخر کرنے کی ترغیب دی ہے، " ہندوؤں اور مسلمانوں میں ارتباہ" اس مضمون میں سر سید نے دیگر امور کے علاوہ یہ اپیل بھی کی ہے کہ اتفاق و اتحاد و ہم آہنگی کی غرض سے گئو کشی سے اجتناب کرنا چاہیے، "غیر مذہب کے پیشواؤں کا ہمیں ادب کرنا چاہیے"، اس مضمون میں بین المذاہب ہم آہنگی کی باتیں کہی گئیں ہیں۔ تاریخ نگاری کے اعتبار سے یہ مزید بہتر ہوتا کہ سرسید کے ان مزکورہ مضامین اور رسالوں کا حوالہ صرف اسماعیل پانی پتی کی تالیفات کے علاوہ ان کی پہلی یعنی اوریجینل سنہ اشاعت اور حوالے سے باتیں زیادہ واضح ہوتیں کہ آخر سرسید کس مخصوص تاریخ میں ایسی باتیں کر رہے تھے۔

اس کتاب نے سرسید کی ان چند تحریروں اور تقریروں کا ذکر نہیں کیا ہے جس میں انہوں نے اجلاف و ارزال کے تئیں تحقیر و تنفر کا اظہار کیا ہے، اور جن کے حوالے سے مسعود عالم فلاحی کی کتاب "ذات پات اورمسلمان" نے گفتگو کی ہے۔

افتخار صاحب اب مسلم یونیورسیٹی سے ملحق اسکول منٹو سرکل کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہیں۔ ان کی تمام تحقیقی تصانیف کی مدد سے، نئے محققین، مزید ماخذ تلاش کر کے، انگریزی و دیگر زبانوں میں سرسید کی جامع بایو گرافی اور ان کے عہد کی جامع تاریخ لکھ کر سرسید مطالعات اور 19 ویں صدی کے کالونیل ہندوستان کی تاریخ کے باب میں نمایاں اور مقبول اضافہ کر سکتے ہیں۔ اردو معاشرے کو افتخار صاحب کا ممنون ہونا چاہیے کہ ان کی تحقیقی تصنیفات ایک نئی، سلیبس، رواں، اور برجستہ نثر کی مدد سے پیچیدہ، اور متنازعہ تاریخی مسئلے کو دلچسپ اور اثر آفرین انداز میں پیش کر رہی ہیں۔

تبصرہ نگار: پروفیسر محمد سجاد، شعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی، علی گڑھ (اترپردیش)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔