خون سے لکھے خطوط، فلموں کی قطار، راجیش کھنہ کا جنون کیسے ایک دور پر چھا گیا؟

ستر کی دہائی میں راجیش کھنہ کی دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ لڑکیاں انہیں خون سے خط لکھتیں۔ آرادھنا سے مقبولیت کی انتہا پر پہنچے اس اداکار نے رومانس اور سنجیدہ کرداروں سے دل جیتے

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویریو این آئی</p></div>

فائل تصویریو این آئی

user

قومی آواز بیورو

ستر کی دہائی کا ہندوستانی سنیما جب رومانس کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا، اس وقت ایک چہرہ ایسا تھا جو پردے پر آتے ہی دلوں کی دھڑکن تیز کر دیتا اور وہ تھے راجیش کھنہ۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نوعمر لڑکیاں انہیں اپنے خون سے محبت نامے لکھتیں، ان کے بوسے لینے کی خواہش میں تصویریں چومتی تھیں اور ان کے گزرنے کے بعد راستے پر بکھری دھول کو چوما کرتی تھیں۔

یہ صرف اداکاری کا جادو نہیں تھا بلکہ ایک ایسا کرشمہ تھا جس نے عام تماش بین کو جنونی مداح میں بدل دیا۔ فلم آرادھنا کی ریلیز کے بعد 1969 میں جیسے سب کچھ بدل گیا۔ راجیش کھنہ نے اس فلم میں باپ اور بیٹے کا دوہرا کردار ادا کیا تھا اور ان کا منفرد انداز، گمبھیر آنکھیں، نرمی سے جھٹکتے ہوئے بال اور مدھم مسکراہٹ، یہ سب کچھ ناظرین کے دل میں ایسا بیٹھا کہ پھر وہی راجیش کھنہ بالی ووڈ کے پہلے ’سپر اسٹار‘ کہلائے۔

ان کے چاہنے والوں کا جنون ایسا تھا جو اس سے قبل کسی اور اداکار کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ فلمی تجزیہ نگاروں کے مطابق دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند جیسے بڑے ناموں نے شہرت تو پائی لیکن راجیش کھنہ کے پرستاروں کی دیوانگی بے مثال تھی۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے دلوں پر ان کا راج تھا۔ ان کی شادی کی خبر نے نہ صرف ان کے لاکھوں مداحوں کو چونکا دیا بلکہ کئی دل بھی توڑ دیے۔

ان کی فلموں کی فہرست کامیابیوں سے بھری ہوئی ہے۔ کٹی پتنگ، امر پریم، اجنبی، سفر، آنند اور دو راستے جیسی فلموں میں انہوں نے ایسی ادکاری کی کہ ان کے کردار برسوں لوگوں کے ذہنوں میں نقش رہے۔ خاص طور پر آنند فلم کا یہ مکالمہ، ’’بابوموشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں...‘‘ آج بھی مداحوں کے ذہن میں تازہ ہے، اور خود راجیش کھنہ کی شناخت بن چکا ہے۔


ان پر ایک وقت میں صرف رومانوی کرداروں تک محدود ہونے کا الزام بھی لگا، مگر انہوں نے باورچی جیسی فلم میں مزاحیہ کردار ادا کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اداکاری کے میدان میں کتنے متنوع ہیں۔ پھر ریڈ روز میں منفی کردار ادا کر کے بھی ناظرین کو حیران کیا۔

جس طرح ان کی فلموں نے ہٹ ہونے کے ریکارڈ توڑے، اسی طرح 15 مسلسل سپرہٹ فلمیں دے کر انہوں نے ایک ناقابل یقین سنگ میل عبور کیا لیکن جب امیتابھ بچن نے اپنے اینگری ینگ مین انداز سے سنیما پر قبضہ جمایا تو رومانس کے بادشاہ کی چمک ماند پڑنے لگی۔

راجیش کھنہ نے 80 کی دہائی میں خود کو کردار اداکار (کریکٹر ایکٹر) کے طور پر ڈھالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے فلم سازی کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور سیاست میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔ کانگریس پارٹی سے رکن پارلیمان بنے اور عوامی خدمت کا نیا باب شروع کیا۔

ان کے کیریئر کی شاندار بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف رومانس کے بادشاہ تھے بلکہ گہرے، سنجیدہ، مزاحیہ اور منفی کرداروں میں بھی خود کو منوا چکے تھے۔ ممتاز اور شرمیلا ٹیگور کے ساتھ ان کی جوڑیاں آج بھی یادگار سمجھی جاتی ہیں۔


18 جولائی 2012 کو وہ دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی فلمیں، ان کے مکالمے، ان کی ادائیں اور ان کا جادو آج بھی زندہ ہے۔ راجیش کھنہ کا وہ دور صرف اداکاری کا نہیں بلکہ جنون، دیوانگی اور جذبات کی انتہا کا دور تھا، ایک ایسا دور جب فلمی ہیرو کے لیے محبت کے خطوط خون سے لکھے جاتے تھے۔

(مآخذ: یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔