یہ ووٹ چوری نہیں بلکہ ڈکیتی ہے
راہل گاندھی کے سنسنی خیز انکشافات کے بعد سارے ملک میں یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا ہے اور کئی گوشوں سے راہل کے دعوے کی تائید کی جا رہی ہے

اپنے وجود کو باقی رکھنے کی جدوجہد کرنے والی بی جے پی کو آج سے تقریباً 11 برس قبل 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جس طرح تھوک کے بھاو سیٹیں ملی تھیں، اس پر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی پنڈت بھی ششدر رہ گئے تھے ۔ اس وقت کے غیر متوقع نتائج نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا اور یہاں تک کہا جانے لگا تھا کہ ’دال میں کچھ کالا ہے‘ پھر بھی وطن عزیز کے بھولے بھالے ووٹروں اور ماہرین سیاست نے الیکشن کمیشن پر بھروسہ قائم رکھا اور اپنے تمام شکوک و شبہات کو جمہوری وقار پر قربان کردیا۔
مگر2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جبکہ ہر طرف سے یہی اندازے ظاہر کئے گئے تھے کہ بی جے پی کے ’جھوٹ‘ کا غبارہ پھوٹنے والا ہے کیونکہ ان پانچ سالوں میں فرقہ وارانہ منافرت کے سوا ملک اور عوام کی ترقی اور بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا کہ بے روزگار نوجوانوں سے لے کر ملک کا ہر شہری پریشان ہے اور حکومت کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کر رہا ہے۔ مگر جب نتائج سامنے آئے تو بی جے پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر2014 سے بھی زیادہ سیٹیں بٹورنے میں کامیاب رہی۔
2014سے جاری یہ سلسلہ آخرکار 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مدھم پڑ گیا جب مہنگائی، بے روزگاری اور غیر ضروری مسائل سے عاجز عوام نے حکمرانوں کے تئیں کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقتدار کے گھوڑے پر سرپٹ دوڑ رہی بی جے پی دھڑام سے گر گئی اور اس کی حریف کانگریس پر عوام نے ایک بار پھر بھروسہ کر کے اسے اقتدار کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ حالانکہ اس وقت بھی جب سیاسی پنڈتوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے تب ایک بار پھر آواز اٹھی کہ’ دال میں کچھ کالا‘ ہے۔
اس صورت میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا کردار بھی مشکوک نظر آیا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما لگاتار یہ کہتے رہے کہ بی جے پی نے الیکشن کمیشن کو اپنے تابع کرتے ہوئے ووٹر لسٹ میں الٹ پھیر کی ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ووٹ فہرست میں غیر قانونی طریقوں سے شامل کرتے ہوئے انتخابات میں دھاندلیاں کی جا رہی ہیں اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا جا رہا ہے۔ مگر ان آوازوں کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن کانگریس قیادت نے ان آوازوں کو سنجیدگی سے لیا اور اس پر کام کرنا شروع کر دیا۔
اس کا نتیجہ 8 اگست 2025 کو سامنے آیا جب لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایک تاریخ ساز پریس کانفرنس میں ’ووٹ چوری بم‘ پھوڑ دیا اور تب ملک کے عوام کو یقین ہوا کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ یہاں تو پوری دال ہی کالی ہے۔ پرہجوم کانفرنس میں راہل گاندھی نے اپنے طور پر الیکشن فراڈ اور ووٹوں کی چوری کا ثبوت پیش کیا۔ انہوں نے ایک اسمبلی اور ایک پارلیمانی حلقہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ حقائق پیش کئے کہ کس طرح سے ووٹر لسٹ میں دھاندلی کی جا رہی ہے اور فراڈ کیا جا رہا ہے۔
راہل گاندھی کا الزام تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بی جے پی سے ساز باز کر کے اسے فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کی سہولت کے مطابق انتخابات کے شیڈول تیار کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے اور کانگریس کانٹے کی ٹکر دے رہی ہے تاہم کمیشن بی جے پی کے ساتھ مل کر اسے فائدہ پہنچانے کے اقدامات کر رہا ہے۔ راہل کے مطابق کمیشن کی جانب سے 100 دن میں سارا ریکارڈ تلف کرنے کی بات کی جا رہی ہے جس سے شبہات کو تقویت ملتی ہے۔
کانگریس رہنما کے الزامات میں کافی حد تک سچائی نظر آتی ہے کہ کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک سی ڈی میں برسوں تک ریکارڈ محفوظ رکھا جا سکتا ہے اس کے باوجود الیکشن کمیشن انہیں تلف کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ سراسر اپنی چوری کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ایک کمرے میں درجنوں ووٹرس درج کئے جا رہے ہیں جبکہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایک ہی نام اور تصویر کے ووٹر آئی کارڈ ملک کی مختلف ریاستوں میں پائے گئے ہیں۔ یہ دھاندلی اور چوری کے مترادف ہے اور کمیشن کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔
ملک کے ایک ذمہ دار لیڈر کی جانب سے اس طرح کے الزامات اور ’ثبوتوں‘ پر الیکشن کمیشن کو حرکت میں آنا چاہئے۔ الزامات کا جواب دینا چاہئے کہ ووٹر لسٹ میں کس طرح سے دھاندلیاں کی گئی ہیں اور کمیشن کے علم میں یہ بات کیوں نہیں لائی گئی۔ الیکشن کمیشن صرف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ جب راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن پر سنگین الزام لگائے تو حکمراں بی جے پی تڑپ اٹھی اور میدان میں کود کر ترجمان کی طرح الیکشن کمیشن کا دفاع کرتی نظر آئی۔
یہ پہلی بار نہیں جب راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے مگر الیکشن کمیشن اپنے طور پر مبہم انداز میں چند جملوں پر مشتمل جواب دینے پر ہی اکتفاء کر رہا ہے۔ تاہم ایک بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اور دلچسپ ہے کہ الیکشن کمیشن کا دفاع خود کمیشن سے زیادہ بی جے پی کرنے لگی ہے۔ بی جے پی کے قائدین لگاتار الیکشن کمیشن کے اقدامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں اور وہ کمیشن سے سوال کرنے والے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
جب سے راہل گاندھی نے ووٹر لسٹ میں الٹ پھیر اور گڑبڑی کے الزامات لگائے ہیں اور یہ دعوی کیا ہے کہ مودی حکومت کی کامیابی اسی دھاندلی اور الٹ پھیر کا نتیجہ ہے ،بی جے پی چراغ پا ہو گئی ہے۔ بی جے پی کی جانب سے نت نئے بہانے پیش کئے جا رہے ہیں۔ بے سر پیر کی باتیں کی جا رہی ہیں اور جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے راہل گاندھی پردباوبنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے ان کی شبیہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں نا اہل تک قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے راہل گاندھی کی عوامی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور کانگریس کی سیٹوں کی تعداد بھی دوگنی ہو گئی ہے۔ اس صورت میں بی جے پی راہل گاندھی کو اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ محسوس کرنے لگی ہے تبھی وہ چاہتی ہے کہ کسی بھی ہتھکنڈے کے ذریعہ کامیابی حاصل کی جائے۔ راہل گاندھی کے چند روز قبل کئے گئے سنسنی خیز انکشافات کے بعد سارے ملک میں یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا ہے اور کئی گوشوں سے راہل کے دعوے کی تائید کی جا رہی ہے۔
حد تو تب ہوگئی جب بی جے پی نے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اس سے ملک میں بر سر اقتدار بی جے پی کے خوف کا پتہ چلتا ہے۔ اگر ملک کے کسی دستوری اور جمہوری ادارہ کے وقار پر آنچ آتی ہے اور اس کی شبیہ متاثر ہوتی ہے تو حکومت کو اس کی شبیہ بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنا چاہئے۔ جمہوری اور دستوری اداروں سے بدنظمی کو دور کیا جانا چاہئے۔ بی جے پی اس کے برخلاف کام کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اپوزیشن انتخابی عمل سے دور ہو جائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ راہل کے الزامات بے بنیاد نہیں ہیں۔
الیکشن فراڈ کا الزام ایک سنگین معاملہ ہے جو کسی عام ادارے پر نہیں بلکہ جمہوریت کے اجزاء میں سے ایک اہم ادارے پر لگا ہے جسے ہر حالت میں غیرجانبدار رہنا ہوگا بصورت دیگر الیکشن کمیشن اور سیاسی پارٹی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا اور تب جمہوریت کو سنگین خطرہ لاحق ہوگا۔ اگر راہل گاندھی کے دعوے غلط ہیں تو الیکشن کمیشن کو سامنے آ کر دلیل اور ثبوتوں کے ساتھ تردید کرنا چاہئے کیونکہ کانگریس لیڈر نے جس طرح کے ثبوت پیش کئے ہیں اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ووٹ چوری نہیں بلکہ ووٹ ڈکیتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔