ستارے زمین پر کا امتحان: کیا بالی وڈ آخرکار نیوروڑائیورجینٹ کرداروں کو انسان سمجھنے لگا؟

دس نیوروڑائیورجینٹ اداکاروں پر مبنی ’ستارے زمین پر‘ محض فلم نہیں، ایک امتحان ہے کہ بالی وڈ اب بھی ہمدردی سے آگے بڑھ کر حقیقت پسندانہ نمائندگی کے لیے تیار ہے یا نہیں!

<div class="paragraphs"><p>ستارے زمین پر کا پوسٹر / سوشل میڈیا</p></div>

ستارے زمین پر کا پوسٹر / سوشل میڈیا

user

پُنیت سنگھ سنگھل

بیس جون کو جب 'ستارے زمین پر' سینما گھروں میں ریلیز ہوگی، تو یہ محض عامر خان کی ایک اور فلم نہیں ہوگی، بلکہ ایک امتحان ہوگا — بالی وڈ کی سنجیدگی کا، ناظرین کی تیاری کا اور اس سوال کا کہ آیا ہندوستان آخرکار ذہنی تنوع کو ہمدردی یا ہنگامہ نہیں، بلکہ حقیقی نمائندگی کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں!

یہ فلم وہ کر رہی ہے جو ہندوستانی سنیما میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے، نیوروڈائیورجنٹ افراد کو مرکزی کرداروں میں پیش کرنا۔ نہ کہ کسی کے مددگار، نہ مزاحیہ پہلو، بلکہ اصلی انسان، اپنی اصل کہانیوں کے ساتھ۔

ایک ضروری مگر دیر سے آیا قدم

طویل عرصے سے بالی وُڈ میں معذوری کو یا تو جذباتی استحصال کے طور پر پیش کیا گیا، یا بطور مہمیز کہانی کی سہولت کے لیے لیکن اب پہلی بار ایسے لوگ سامنے آ رہے ہیں جو آٹزم، ڈاؤن سنڈروم، یا فریجیائل ایکس سنڈروم جیسے مسائل سے خود دوچار ہیں اور وہ اداکاری نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنی زندگی کا عکس دکھا رہے ہیں۔

تاہم، یہ پیشرفت محض ایک اچھی خبر نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔ اگر فلم نے ان افراد کو ‘فرشتے‘ یا ’قابلِ رحم‘ بنا کر پیش کیا، تو بات وہیں آ کر رک جائے گی جہاں پہلے تھی۔


نیوروڈائیورسٹی: ایک وضاحت

نیوروڈائیورسٹی کا مفہوم یہ ہے کہ ذہنی و عصبی اختلافات جیسے کہ آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی، ڈسلیکسیا وغیرہ انسانی دماغ کی قدرتی اقسام ہیں اور انہیں بیماری یا نقص نہ سمجھا جائے۔ آسٹریلوی ماہر سماجیات جوڈی سنگر نے یہ اصطلاح 1990 کی دہائی میں متعارف کرائی تھی۔

ہندوستان جیسے معاشرے میں، جہاں ایسے مسائل کی تشخیص میں تاخیر اور آگاہی کی شدید کمی ہے، یہ سوچ نہایت ضروری ہے۔ عالی ادارہ صحت کے مطابق، ہر 100 بچوں میں سے ایک آٹزم کا شکار ہوتا ہے، جبکہ ڈاؤن سنڈروم ہر 1000 میں ایک بچے کو متاثر کرتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ اعداد و شمار اکثر خاموشی، شرمندگی اور تنہائی میں بدل جاتے ہیں۔ ایسے بچے اسکول نہیں جاتے، ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں اور خاندان ان کو چھپانا سیکھ لیتے ہیں۔

سنیما کی ماضی کی کوتاہیاں

بالا دست طبقے کی نظر سے بنی فلموں میں معذوری اکثر یا تو سزا کے طور پر دکھائی گئی، یا جذباتی کہانی سنانے کا ذریعہ بنی۔ ’کوشش‘ (1972) اور ’اسپرش‘ (1980) جیسے چند سنجیدہ فلمی تجربات کے بعد، 2000 کے بعد سنیما میں زیادتی یا جذباتی تجرید کا رجحان بڑھا۔

’بلیک‘ (2005) میں ایک بہری اور نابینا لڑکی کو ‘روحانی پروجیکٹ‘ بنا دیا گیا۔ ’مائے نیم از خان‘ (2010) میں آٹزم کا مرکزی کردار تو دکھایا گیا، مگر امریکی بیانیے میں ملفوف۔ ’برفی‘ (2012) نے نیوروڈائیورجنس کو رومانوی انداز میں پیش کیا، مگر اس کے حقیقی سماجی اثرات کو مکمل نظر انداز کر دیا۔ زیادہ نقصان وہ کردار دیتے ہیں جنہیں صرف مذاق بنانے، کمزور دکھانے، یا عجیب و غریب ذہین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جیسے بولنے کی دقت پر ہنسی اڑانا یا حد سے زیادہ مختلف دکھانا۔


یہ فلم کیوں اہم ہے؟

’ستارے زمین پر‘ ایسے وقت میں آ رہی ہے جب دنیا بھر میں نیوروڈائیورجنٹ افراد کی حقیقی اور بااختیار نمائندگی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ مغربی ٹی وی سیریز جیسے ’ اے کائنڈ آف اسپارک‘ یا ’ایوری تھنگ گونا بی اوکے‘ نے یہ ثابت کیا ہے کہ نیوروڈائیورجنس کو صرف بیماری کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے، زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں اگرچہ معذور افراد کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں (مثلاً 2016 کا آر پی ڈی ایکٹ)، مگر سنیما ابھی بہت پیچھے ہے۔ لہٰذا، جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس فلم میں رشبھ جین (بیکر اور کامیڈین)، گوپی کرشن ورما (ملیالم فلم کے پہلے ڈاؤن سنڈروم ہیرو)، نمن مشرا (سافٹ ویئر ڈیولپر اور ماڈل) اور دیگر فن، موسیقی، اسپورٹس اور ٹیکنالوجی میں سرگرم افراد شامل ہیں، تو امید کی ایک کرن ضرور نظر آتی ہے۔

لیکن امید کافی نہیں

اگر یہ فلم انہیں صرف ’تحریک بخش کردار‘ یا ’مظلوم مخلوق‘ کے طور پر دکھاتی ہے تو بات وہیں آ کر رک جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نیوروڈائیورجنٹ افراد کو فلم میں مکمل انسانوں کے طور پر دکھایا جائے کہ وہ ہنستے ہیں، غصہ کرتے ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں، بالکل باقی انسانوں کی طرح۔

حقیقی تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

1. کہانی لکھنے والے کمرے میں شمولیت: نیوروڈائیورجنٹ افراد کو کہانی نویسی میں شامل کیا جائے۔ ان کی زندگیوں کی جھلک براہِ راست اسکرپٹ میں آئے۔

2. حساس مشاورت: ہدایت کاری، ملبوسات، ترمیم اور مارکیٹنگ ہر سطح پر حساس مشیر شامل کیے جائیں تاکہ بات صرف ’درستگی‘ کی نہ ہو، عزت اور وقار کی ہو۔


3. ٹیم میں نمائندگی: اداکاری سے آگے بڑھ کر ایڈیٹنگ، سیٹ ڈیزائن، مارکیٹنگ سمیت پروڈکشن ٹیم میں بھی نیوروڈائیورجنٹ افراد کو شامل کیا جائے۔

4. طویل مدتی عزم: یہ محض ایک فلم نہ ہو، بلکہ انضمام کے سفر کی ابتدا ہو۔ دیگر اصناف کی فلموں میں بھی نیوروڈائیورجنٹ افراد کو موقع دیا جائے۔

5. میڈیا کی ذمہ داری: نقادوں اور صحافیوں کو چاہیے کہ وہ محض جذباتی تحسین پر اکتفا نہ کریں، بلکہ سنجیدہ تنقید سے نمائندگی کے معیار کو جانچیں۔

ناظرین کا کردار؟

ناظرین صرف فلم دیکھنے نہ جائیں، اندازِ نظر لے کر جائیں۔ خود سے پوچھیں کہ کیا میں نے ان کرداروں کو دیکھنے سے پہلے کوئی مفروضے قائم کیے تھے؟ مجھے کون سی بات حیران کن لگی؟ کیا مجھے کوئی چیز ناگوار یا چیلنجنگ محسوس ہوئی؟

یاد رکھیں ’ستارے زمین پر‘ کی کامیابی صرف باکس آفس سے نہیں، بلکہ اس بات سے جانی جائے گی کہ آیا کوئی ’مشکل‘ کہلایا جانے والا بچہ اپنے آپ کو اسکرین پر بوجھ نہیں بلکہ ستارہ دیکھ پاتا ہے۔ اور کیا والدین، اساتذہ، آجر اور پڑوسی بھی انہیں آخرکار معجزہ یا منصوبہ نہیں، بلکہ انسان سمجھنے لگتے ہیں۔

(مضمون نگار پُنیت سنگھ سنگھل، معذور افراد کی شمولیت اور ان کے لیے رسائی کے ماہر مشیر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔