گھڑی بیچی، قسمت خریدی، راجندر کمار کی فلمی سفر کی حیران کن شروعات
راجندر کمار نے گھڑی بیچ کر خواب خریدا اور خود ’جوبلی کمار‘ بن گئے۔ وہ صرف اسٹار نہیں، حوصلے، خلوص اور عاجزی کا استعارہ تھے۔ ان کا سفر آج بھی فنکاروں کے لیے سبق ہے

راجندر کمار / آئی اے این ایس
جب راجندر کمار نے اپنے والد کی گھڑی بیچ کر صرف 50 روپے جیب میں ڈالے اور بمبئی کے لیے روانہ ہوئے، تو وہ لمحہ محض فلمی سفر کی شروعات نہ تھی — بلکہ ایک ہار نہ ماننے والے خواب کی علامت تھا۔ آج جب ہم ان کی سالگرہ (20 جولائی 1929) کے موقع پر انہیں یاد کرتے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم ان کے فلمی کیریئر کی سلور جوبلی فہرست سے آگے نکل کر اس خاموش مگر پراثر جدوجہد کو سمجھیں جس نے راجندر کمار کو ’جوبلی کمار‘ بنایا۔
بمبئی پہنچنے کے بعد ان کے پاس نہ کوئی جان پہچان، نہ بیک اپ پلان۔ بس ایک خواب تھا، پردے پر آنے کا۔ ان کے قریبی دوست نغمہ نگار راجندر کرشن نے انہیں ہدایت کار ایچ ایس راویل سے ملوایا، جنہوں نے انہیں 150 روپے ماہانہ پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر رکھ لیا۔ اداکاری کا کوئی اتہ پتہ نہیں، بس اسٹوڈیو کی راہداریوں میں دوڑتے پھرتے رہے۔ ان کے چہرے پر موجود خاموشی اور آنکھوں میں چھپے سوال، شائد کسی کو دکھائی نہ دیے، سوائے کیمرے کے۔
سات برسوں کی جدوجہد کے بعد 1957 کی مدر انڈیا وہ موڑ ثابت ہوئی، جہاں راجندر کمار کے چہرے نے اسکرین پر پہلی بار تاثر چھوڑا۔ نرگس کے بیٹے کے کردار میں ان کے چند مناظر ہی سہی، مگر اتنے طاقتور تھے کہ دیکھنے والا بھول نہ سکا۔ یہاں سے ان کے لیے فلمی دروازے کھلنے لگے، مگر اصل چمک 1959 میں گونج اٹھی شہنائی سے آئی۔
لوگ انہیں محبت سے ’جوبلی کمار‘ کہتے ہیں، کیونکہ ان کی فلمیں پے در پے 25 سے 50 ہفتے تک سینما گھروں میں چلتی رہیں۔ میرے محبوب، دل ایک مندر، گھرانہ، قانون، سورج، آئی ملن کی بیلا، آرزو، ان کی فلمیں صرف ہٹ نہیں تھیں، بلکہ جذبات کا آئینہ بن گئی تھیں۔
لیکن یہ لقب بھی ان کے لیے کبھی غرور کی علامت نہیں بنا۔ 1964 کی سنگم میں جب راج کپور کے ساتھ معاون کردار کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے بلا جھجک قبول کیا، حالانکہ وہ خود اس وقت صفِ اول کے ہیرو تھے۔ اس عاجزی نے ان کے قد کو اور بلند کر دیا۔
1970 کے عشرے میں راجیش کھنہ کا طوفان آیا اور بہت سے سابقہ ہیرو دب گئے۔ راجندر کمار نے وقتی کنارہ کشی اختیار کی، مگر شکست تسلیم نہ کی۔ 1978 میں ساجن بِنا سہاگن سے واپسی کی اور پھر 1981 میں بطور پروڈیوسر و ہدایتکار لو اسٹوری پیش کی، جو نہ صرف ہٹ ہوئی بلکہ ان کے بیٹے کمار گورو کو راتوں رات اسٹار بنا گئی۔
یہ لمحہ راجندر کمار کے لیے سب سے زیادہ ذاتی اور جذباتی تھا۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ فلم نہیں، ایک باپ کا خواب تھا، جو اس نے اپنے بیٹے کے لیے پردے پر زندہ کیا۔ فلم نام (1986) میں انہوں نے کمار گورو اور سنجے دت کے ساتھ کام کیا لیکن فلم کی کامیابی کا کریڈٹ زیادہ تر سنجے کو ملا۔ پھر پھول کی ناکامی نے بیٹے کے کیریئر کو کمزور کر دیا۔ راجندر کمار نے شکوہ نہیں کیا لیکن اندر ہی اندر وہ تکلیف محسوس کرتے تھے، ایک باپ کا دل شکستہ تھا لیکن فنکار ہمیشہ فعال رہا۔
انہوں نے 1990 کی دہائی میں آہستہ آہستہ فلموں سے کنارہ کشی اختیار کی۔ کینسر کا شکار ہوئے مگر آخری دم تک خود داری نہ چھوڑی۔ 12 جولائی 1999 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن پیچھے ایک مکمل فنکار، ایک شائستہ انسان اور خوابوں سے حقیقت تک کا راستہ دکھانے والی ایک کہانی چھوڑ گئے۔
راجندر کمار ہمیں سکھا گئے کہ خواب بے قیمت ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے قیمت چکانا پڑتی ہے، کامیابی کی اصل بنیاد عاجزی ہے اور فلمی دنیا شہرت سے نہیں، خلوص سے جیتی جاتی ہے۔
(مآخذ: یو این آئی)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔