’شعلے‘ کے 50 سال: تاریخ ساز فلم کے بڑے ہی نہیں، چھوٹے کردار بھی دلوں میں زندہ

فلم ’شعلے‘ کو ریلیز ہوئے 50 سال ہو گئے ہیں۔ جے، ویرو، گبر سمیت چھوٹے کردار بھی شائقین کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ڈائیلاگز، گانے اور مناظر آج بھی عام گفتگو، تقریروں اور ثقافت کا حصہ ہیں

<div class="paragraphs"><p>فلم شعلے/&nbsp;source: @FHF_Official/X</p></div>
i
user

عمران اے ایم خان

15 اگست 1975 کو ریلیز ہونے والی بالی وڈ کی تاریخ ساز فلم ’شعلے‘ آج اپنی ریلیز کے 50 سال مکمل کر چکی ہے۔ یہ محض ایک فلم نہیں، بلکہ ایک ایسا ثقافتی اور جذباتی حوالہ ہے جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ’کتنے آدمی تھے؟‘، ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘، ’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں‘ جیسے ڈائیلاگز آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں، محفلوں میں دہرائے جاتے ہیں اور چہروں پر مسکراہٹ لے آتے ہیں۔

میرا اس فلم سے پہلا تعارف بچپن میں ہوا، جب شعلے کو ریلیز ہوئے 15-20 سال گزر چکے تھے۔ اس وقت نہ یوٹیوب تھا، نہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز، اور نہ ہی فلمیں ایک کلک پر دستیاب ہوتی تھیں۔ وہ دور آڈیو کیسیٹ اور وی سی آر کا تھا۔ فلمیں لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو جایا کرتی تھیں اور شائقین سینما گھروں میں ایک ہی فلم کئی بار دیکھنے جاتے تھے۔ شعلے کا جنون اس زمانے میں کچھ اور ہی تھا، اور آج پچاس سال بعد بھی یہ فلم اپنے کرداروں اور مکالموں کے ذریعے زندہ ہے۔


اس موقع پر شعلے کا غیر سنسر شدہ خصوصی ورژن بھی پیش کیا جا رہا ہے، جس میں وہ تمام مناظر، موسیقی اور اصل اختتام شامل ہیں جو 1975 میں سنسر بورڈ کے اعتراض کی وجہ سے کاٹ دیے گئے تھے۔ یہ ورژن بیرونِ ملک ریلیز ہو رہا ہے۔

شعلے جب ریلیز ہوئی تھی، تب یہ ممبئی کے 1,500 نشستوں والے مشہور منروا تھیٹر میں مسلسل پانچ سال تک چلتی رہی۔ بی بی سی انڈیا کے آن لائن سروے میں اسے ’ملینیم کی بہترین فلم‘ قرار دیا گیا، اور برٹش فلم انسٹیٹیوٹ کے پول میں یہ بھارت کی بہترین فلم ٹھہری۔ آر ڈی برمن کی موسیقی اور شاندار ڈائیلاگز کی پانچ لاکھ سے زائد کیسٹیں فروخت ہوئیں۔ آج بھی یہ ڈائیلاگز شادیوں، سیاسی تقریروں اور اشتہارات میں گونجتے ہیں۔

چھوٹے کردار، بڑا اثر

مرکزی کردار جے، ویرو، بسنتی اور ٹھاکر کی کہانی کے ساتھ ساتھ شعلے میں ایسے کئی چھوٹے کردار ہیں جنہوں نے فلم کو امر بنا دیا۔

سورما بھوپالی (جگدیپ) — ایک خود ساختہ بہادر، شوخ مزاج لکڑہارے، جو اپنی بڑکوں سے محفل کو قہقہوں سے بھر دیتا ہے۔ "ہمارا نام سورما بھوپالی ایسے ویسے نہیں ہے" جیسا ڈائیلاگ آج بھی ناظرین کو یاد ہے۔ اس کردار کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ 1988 میں اس پر علیحدہ فلم بھی بنائی گئی۔


موسی (لیلا مشرا) — بسنتی کی سخت مگر پیار کرنے والی موسی، جو مزاح اور محبت کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔

امام صاحب (اے کے ہنگل) — بینائی سے محروم امام صاحب کی خاموشی اور دکھ بھری موجودگی دل کو چھو لیتی ہے۔ اپنے بیٹے کی موت پر ان کا جملہ ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟: فلمی تاریخ کا لازوال لمحہ ہے۔

سانبھا (میک موہن) — گبر کا وفادار ساتھی، جس کی صرف ایک لائن ’پورے پچاس ہزار‘ اسے فلمی تاریخ کا حصہ بنا گئی۔

احمد (سچن پلگاونکر) — امام صاحب کا بیٹا، مختصر سکرین ٹائم کے باوجود ناظرین کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔

جیلر (اسرانی) — ہٹلر جیسا سخت مگر مزاحیہ جیلر، جو اپنے جملے ’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں‘ سے ہر منظر کو ہلکا پھلکا بنا دیتا ہے۔

ڈھنّو — بسنتی کی وفادار گھوڑی، جو صرف ایک جانور نہیں بلکہ ایکشن اور مزاح دونوں کا اہم حصہ ہے۔ "چل ڈھنّو!" آج بھی کسی بھروسہ مند ساتھی یا گاڑی کے لیے کہا جاتا ہے۔

کالیا (ویجو کھوٹے) — گبر کا ساتھی، جس کا ’سردار، میں نے آپ کا نمک کھایا ہے‘ اور گبر کا جواب ’اب گولی کھا‘ فلمی یادگار لمحہ ہے۔

ہری رام نائی (کیشٹو مکھرجی) — قیدیوں کے بال کاٹنے والا مسخرہ، جو ہر جیل کے منظر کو ہنسی کا رنگ دیتا ہے۔


سلیم-جاوید نے ہر کردار کو مقصد دیا، چاہے وہ مزاح ہو، خوف، جذبات یا ایکشن۔ شعلے ثابت کرتی ہے کہ فلم میں کوئی کردار چھوٹا نہیں ہوتا۔ ہر کردار، چاہے چند منٹ کے لیے ہی آئے، کہانی کو مکمل کرتا ہے اور نسلوں تک یاد رہتا ہے۔ پچاس سال بعد بھی، شعلے کے مکالمے اور کردار ہماری زبان اور یادوں میں زندہ ہیں، اور یہ فلم صرف پردے پر نہیں بلکہ دلوں میں بھی ہمیشہ کے لیے بس چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔