شمی نے کامیڈی اور منفی کردار بھی بخوبی نبھائے

شمی کے بات کرنے کے انداز سے شیخ مختار کافی متاثر ہوئے اور انہیں اپنی فلم میں 500 روپے ماہانہ پر تین سال کے معاہدے کے ساتھ رکھ لیا اور انہیں تلقین کی کہ وہ اجازت کے بغیر کسی دوسری فلم میں کام نہ کریں۔

نرگس ربادی، عرف شمی، تصویر آئی اے این ایس
نرگس ربادی، عرف شمی، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

(یوم وفات کے موقع پر خاص)

ممبئی: بالی ووڈ میں اداکار شمی نے نہ صرف بطور مرکزی کردار نبھائے بلکہ کامیڈی اور منفی کرداروں میں بھی خاص شناخت بنائی۔ دادی، نانی اور ماں کے بہترین کردار ادا کرنے والی شمی کی پیدائش 24 اپریل 1929 کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کا حقیقی نام نرگس ربادی تھا۔ جب ان کی عمر محض 3 برس تھی، ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ پارسیوں کی مذہبی تقریبات میں کھانے پکا کر گزارا کرتی تھیں۔ شمی کی بڑی بہن منی ربادی فلموں میں اداکارواؤں کی ڈریس ڈیزائن کرتی تھیں۔ وہ سال 1967 سے 1944 تک بالی ووڈ میں فیشن ڈیزائنر کے طور پر سرگرم رہیں۔

نرگس ربادی کا فلموں میں کام کرنا ایک اتفاق ہی تھا۔ ان کے ایک فیملی فرینڈ چِنّو ماما فلمساز محبوب کے یہاں کام کرتے تھے۔ چنو ماما کے اداکار اور فلمساز شیخ مختار سے قریبی مراسم تھے۔ اس وقت شیخ مختار ایک فلم بنا رہے تھے اس فلم میں بیگم پارہ ان کے اپوزٹ ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ شیخ مختار کو اس فلم کے لئے دوسری ادکارہ کی تلاش تھی۔ اس سلسلے میں چنو ماما نے نرگس ربادی سے بات کی اور دوسرے دن وہ انہیں شیخ مختار کے اسٹوڈیو لیکر پہنچ گئے۔


شمی کے بات کرنے کے انداز سے شیخ مختار کافی متاثر ہوئے اور انہیں اپنی فلم میں 500 روپے ماہانہ پر تین سال کے معاہدے کے ساتھ رکھ لیا اور انہیں تلقین کی کہ وہ میری اجازت کے بغیر کسی دوسری فلم میں کام نہ کریں۔ اس فلم کو ڈائریکٹر تارا ہریش ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ چونکہ فلموں میں نرگس نام سے ایک اداکارہ پہلے سے ہی موجود تھیں اس لئے انہیں شمی کا نام دیا گیا۔

شمی کی پہلی فلم ’استاد پیڈرو‘ تھی جو سال 1951 میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب ثابت ہوئی۔ استاد پیڈرو کے بعد تارا ہریش دیگر فلم ملہار بنا رہے تھے۔ انہوں نے شمی کو اس فلم میں مین لیڈ رول دینے کی آفر کی۔ چونکہ استاد پیڈرو کے ڈائرہکٹر بھی تارا ہریش تھے اس لئے شیخ مختار نے شمی کو اس فلم میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔ اس فلم کے بعد سے شمی فلموں میں شناخت بنانے میں کامیاب ہوچکی تھیں۔ ملہار کا نغمہ ’بڑے ارمانوں سے رکھا ہے بلم تیری قسم‘ آج بھی کافی مقبول ہے۔ ملہار کے بعد انہیں فلموں میں معاون اداکارہ کے کافی سارے کردار ملنے لگے اور اچھے کرداروں کا انتخاب کرتی گئیں۔ انہوں نے ہیروئن کے رول کے ساتھ ساتھ منفی، مزاحیہ اور سنجیدہ کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں الزام (1954)، پہلی جھلک (1955)، بندش (1955)، آزاد (1955)، سن آف سندباد(1955)، ہلاکو(1956)، راج تلک (1958)، خزانچی (1958)، گھر سنسار (1958)، آخری داؤ(1958)، کنگن (1959)، بھائی بہن (1959)، دل اپنا پریت پرائی (1960) وغیرہ شامل ہیں۔


گزرتے وقت کے ساتھ وہ فلموں میں بطور ہیروئن پھر معاون اداکارہ اور اس کی بعد ماں دادی، نانی کے کرداروں میں نظر آنے لگیں۔ بطور دادی نانی ان کی مشہور فلمیں ہم، مردوں والی بات، گورَو، دل، کلی نمبر1، گوپی کشن، ہم ساتھ ساتھ ہیں، امتحان بھی شامل ہے۔

فلموں کےعلاوہ انہوں نے چھوٹی اسکرین پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سال 1986 کے دوران راجیش کھنہ دوردشن کے لئے ایک ٹیلی وژن سیریز بنا رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کچھ ایپی سوڈ میں شمی کو کام کرنے کا موقع دیا۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے ان کے مزاحیہ سیریل دیکھ بھائی دیکھ، زبان سنبھال کے، شریمان شریمتی، کبھی یہ کبھی وہ اور فلمی چکر کافی مشہور ہوئے۔


شمی نے فلمساز و ہدایتکار سلطان احمد سے شادی کی تھی مگر یہ شادی سات سال سے زیادہ نہیں چل سکی اور ان میں طلاق ہو گئی تھی۔ تقریباً 70 سال تک فلمی دنیا میں جگمگانے والا یہ ستارہ چھ مارچ 2018 کو 88 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔