شکیل بدایونی: وہ شاعر جس نے فلمی دنیا کو لفظوں سے جیتا

فلمی گیتوں اور اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے شکیل بدایونی کی شاعری زندگی سے الگ نہیں، یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ 3 اگست کو ان کے یوم پیدائش پر خصوصی نظر

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ یو این آئی</p></div>

تصویر بشکریہ یو این آئی

user

قومی آواز بیورو

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں، کہ محبتوں کا ہوں رازداں

مجھے فخر ہے مری شاعری، مری زندگی سے جدا نہیں

یہ شعر صرف الفاظ نہیں بلکہ شاعر شکیل بدایونی کی مکمل زندگی کا نچوڑ ہے۔ اردو شاعری کو فلمی دنیا سے جوڑنے والا یہ حساس دل، 3 اگست 1916 کو اتر پردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوا۔ شکیل بدایونی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دل کی بات کو اس سادگی اور تاثیر سے کہتے تھے کہ ہر سننے والا اسے اپنا حال سمجھ بیٹھتا۔

شکیل کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری ممبئی کی ایک مسجد میں خطیب اور امام تھے۔ چنانچہ شکیل کی تعلیم اسلامی مکتب سے ہوئی، جہاں انہیں اردو، فارسی اور عربی سیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں انہوں نے بدایوں کے مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کی اور 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

علی گڑھ میں شکیل نے صرف تعلیم ہی نہیں حاصل کی، بلکہ مشاعروں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ان کے اشعار نے جلد ہی انہیں نوجوانوں میں مقبول بنا دیا۔ وہ انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی مشاعروں کے مستقل فاتح بن گئے۔ علی گڑھ کے دور میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی، جنہوں نے شکیل کو فلمی دنیا کے دروازے تک پہنچایا۔


تعلیم مکمل کرنے کے بعد شکیل بدایونی نے دہلی میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی نوکری اختیار کی لیکن ان کا دل ہمیشہ شاعری میں اٹکا رہا۔ 1946 میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے تو قسمت نے وہیں ان کا نیا راستہ تراش دیا۔ مشہور فلم ساز اے آر کاردار سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے ان کے کلام کو سراہا اور نوشاد علی سے ملوایا۔

نوشاد اور شکیل کی جوڑی نے اردو فلمی گیتوں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ شکیل کا پہلا فلمی گیت ’افسانہ لکھ رہی ہوں‘ (فلم: درد، 1947) زبردست کامیاب رہا اور ان کی شناخت بن گیا۔ پھر ’ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے‘ نے ان کے قدم مضبوط کر دیے۔

شکیل بدایونی نے صرف گیت نہیں لکھے، محبتوں کی ترجمانی کی، جذبات کو نغموں کا روپ دیا۔ انہوں نے 200 سے زائد نغمے لکھے جو نوشاد، ایس ڈی برمن، سی رام چندر، ہیمنت کمار اور روی جیسے عظیم موسیقاروں کی دھنوں پر سجے۔ ان کے الفاظ کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، مکیش، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم اور طلعت محمود جیسے بے مثال گلوکاروں نے اپنی آواز دی۔

شکیل کے مقبول گیتوں میں ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘، ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘، ’میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم‘ اور ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ شامل ہیں۔ ان کے نغموں نے فلموں کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

انہیں تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا، 1961 میں فلم چودھویں کا چاند کے لیے، 1962 میں گھرانہ کے نغمے ’حسن والے تیرا جواب نہیں‘ کے لیے اور 1963 بیس سال بعد کے مشہور نغمے ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘ کے لیے۔


فلمی مصروفیات کے باوجود شکیل کا تخلیقی سفر صرف گیتوں تک محدود نہ رہا۔ ان کے پانچ شعری مجموعے ’غم فردوس‘، ’صنم و حرم‘، ’رعنائیاں‘، ’رنگینیاں‘ اور ’شبستاں‘ شائع ہوئے۔ ان کی کلیات بھی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی آپ بیتی جو 1969 میں لکھی گئی تھی، 2014 میں شائع ہوئی۔

شکیل کی نجی زندگی بھی خاصی دلچسپ رہی۔ وہ بیڈمنٹن کھیلنے، پکنک پر جانے اور پتنگ بازی کے شوقین تھے۔ ان کے ساتھ نوشاد، محمد رفیع اور جانی واکر بھی اکثر شریک ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان لمحات میں بھی زندگی کے رنگ بھرنے ضروری ہیں۔

انہوں نے 1940 میں سلمیٰ سے شادی کی، جو ان کی رشتہ دار اور بچپن سے ان کے ساتھ رہنے والی تھیں۔ ان کے ذاتی تعلقات، شعری وجدان اور جذباتی نزاکتوں نے ان کے کلام کو مزید نکھارا۔ بدقسمتی سے 20 اپریل 1971 کو محض 53 برس کی عمر میں شکیل بدایونی کا انتقال ہو گیا۔ وہ ممبئی میں ہی دفن ہوئے، مگر 2010 میں قبرستان انتظامیہ نے ان کی قبر کا نام و نشان بھی مٹا دیا، جیسا کہ کئی دوسری شخصیات کے ساتھ بھی ہوا۔

لیکن یاد رکھیں، شکیل بدایونی کی قبر مٹ سکتی ہے، شاعری نہیں۔ ان کے لفظ، ان کی باتیں، ان کے گیت آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کیونکہ شکیل نے جو لکھا، وہ دل سے لکھا اور دل سے نکلے الفاظ کبھی مرتے نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔