سچن دیو برمن: نصف صدی پرانی دھنیں جو آج بھی تازگی کا احساس دلاتی ہیں

سچن دیو برمن نے بنگالی لوک دھنوں اور شاستریہ سنگیت کو ہندی فلموں میں سادہ مگر دلکش انداز میں پیش کیا۔ ان کی نصف صدی پرانی دھنیں آج بھی سننے والوں کے دلوں میں تازگی پیدا کرتی ہیں

تصویر سوشل میڈیا
i
user

قومی آواز بیورو

سچن دیو برمن کا نام ہندستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔ وہ ان موسیقاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے فلمی نغموں کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہنے دیا، بلکہ ان میں کلاسیکی، لوک اور روحانی رنگ بھر کر انہیں ایک لازوال فن میں تبدیل کر دیا۔ ان کی دھنیں نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔

تریپورہ کے شاہی گھرانے میں 10 اکتوبر 1906 کو پیدا ہونے والے سچن دیو برمن بچپن ہی سے موسیقی کی طرف مائل تھے۔ ان کے والد خود بھی فنِ موسیقی سے دلچسپی رکھتے تھے، لہٰذا برمن صاحب کو ابتدا سے ہی ایک ایسا ماحول ملا جس نے ان کے ذوق کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے ابتدائی تربیت اپنے والد سے حاصل کی اور بعد میں استاد بادل خان اور بھیشم دیو چٹوپادھیائے جیسے مشہور اساتذہ سے شاستریہ سنگیت سیکھا۔

ابتدائی زندگی میں ہی وہ بنگالی لوک دھنوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ یہی اثر آگے چل کر ان کی موسیقی کا بنیادی رنگ بن گیا۔ انہوں نے کلکتہ ریڈیو پر شمال مشرقی ہند کے لوک نغموں کے پروگراموں میں بطور گلوکار حصہ لیا اور 1930 تک وہ ایک معروف لوک گائیک کے طور پر جانے جانے لگے۔ ان کی آواز میں وہ سادگی اور مٹھاس تھی جو سیدھی دل کو چھو جائے۔

سال 1933 میں فلم یہودی کی لڑکی میں انہیں گانے کا موقع ملا، مگر اتفاق سے وہ نغمہ فلم سے ہٹا دیا گیا۔ بعد ازاں 1935 میں سنجھور پدم کے لیے بھی انہوں نے گانے گائے لیکن وہ خاص کامیابی حاصل نہ کر پائے، تاہم ان کی لگن کم نہیں ہوئی۔ ان کے دل میں موسیقار بننے کا خواب پلتا رہا۔


1944 میں وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ممبئی پہنچے۔ دو برس بعد 1946 میں انہیں فلم ایٹ ڈیز کے لیے موسیقار بننے کا موقع ملا، مگر فلم کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ قسمت ان پر تب مسکرائی جب 1947 میں ریلیز ہونے والی فلم دو بھائی کے نغمے میرا سندر سپنا بیت گیا نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب سچن دیو برمن بطور موسیقار فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

1950 کی دہائی سچن دا کے عروج کا زمانہ تھی۔ فلم نوجوان کا نغمہ ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں ان کے منفرد انداز کی ایک مثال ہے۔ 1951 میں گرو دت کی فلم بازی میں ان کی اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کی جوڑی نے فلمی دنیا میں ایک نیا معیار قائم کیا۔ یہی جوڑی آگے چل کر فلم پیاسا میں اپنے عروج پر پہنچی لیکن اختلافات کے باعث دونوں الگ ہو گئے۔

اس کے بعد سچن دا نے مجروح سلطان پوری، شیلندر، نیرج اور دیگر نغمہ نگاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی موسیقی دیو آنند، گرو دت، ومل رائے اور رشی کیش مکھرجی جیسے ہدایتکاروں کی فلموں کی کامیابی کا بڑا سبب بنی۔ فلم گائیڈ، بندنی، ابھیمان، کاغذ کے پھول اور پریم پربت ان کے فن کا روشن حوالہ ہیں۔

برمن دا کی موسیقی میں ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ سادہ دھنوں کے ذریعے گہرے جذبات پیدا کرتے تھے۔ ان کے نغمے تکنیکی طور پر مشکل نہیں، مگر احساس کے اعتبار سے بے حد مضبوط ہیں۔ ان کی دھنوں میں دیہات کی خوشبو، بنگال کی مٹی اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی نرمی محسوس کی جا سکتی ہے۔


ان کی دھنوں پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، کشور کمار، آشا بھوسلے، مکیش، طلعت محمود اور منّا ڈے جیسے عظیم گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ہر گلوکار کے لیے وہ دھن کچھ اس طرح ترتیب دیتے کہ اس کی آواز کی خوبی نمایاں ہو جائے۔

1957 میں فلم پیئنگ گیسٹ کے گیت چاند پھر نکلا کے بعد ان کا لتا منگیشکر سے اختلاف ہوا اور دونوں نے تقریباً پانچ برس ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ بعد میں ان کے بیٹے آر ڈی برمن کے کہنے پر لتا منگیشکر نے فلم بندنی کے لیے میرا گورا انگ لئی لے گایا، جو آج بھی کلاسیکی گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔

برمن دا نہ صرف موسیقار بلکہ ایک خوبصورت گلوکار بھی تھے۔ انہوں نے کئی یادگار گیت اپنی آواز میں گائے، جیسے سن میرے بندھو رے سن میرے متوا، میرے ساجن ہیں اس پار، اور اللہ میگھ دے چھایا دے۔ ان کے گانوں میں بنگالی لہجے کی مٹھاس اور دل کی گہرائی محسوس ہوتی ہے۔

ان کی موسیقی کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ پیچیدگی کے بجائے سادگی کو ترجیح دیتے۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک اچھی دھن وہی ہے جو عام سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گیت ہر طبقے کے لوگوں میں مقبول رہے۔ سچن دیو برمن نے تقریباً 90 فلموں کے لیے موسیقی دی اور ان میں سے کئی آج بھی سننے والوں کی زبان پر ہیں۔ انہیں 1954 میں فلم ٹیکسی ڈرائیور کے لیے اور 1973 میں فلم ابھیمان کے لیے بہترین موسیقار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

ان کا فلمی کیرئیر تقریباً تین دہائیوں پر محیط رہا، مگر ان کی دھنیں وقت کی قید سے آزاد ہیں۔ آج بھی جب گائیڈ کا ’آج پھر جینے کی تمنا ہے‘ یا بندنی کا ’میرا گورا انگ لئی لے‘ بجتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تازہ ہوا کا جھونکا دل کو چھو گیا ہو۔


سچن دا 31 اکتوبر 1975 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کا فن ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔ ان کی دھنوں میں نہ صرف ماضی کی خوشبو ہے بلکہ وہ ہر دور کے سننے والوں کو نیا احساس عطا کرتی ہیں۔ ان کی موسیقی وقت کے ساتھ پرانی نہیں ہوئی بلکہ ہر نسل کے ساتھ نئی ہوتی گئی۔

آج جب فلمی موسیقی میں شور اور تیزی کا دور ہے، تب بھی سچن دیو برمن کی نرم، گہری اور مدھر دھنیں سننے والوں کو سکون اور مسرت کا احساس دلاتی ہیں۔ ان کا فن یاد دلاتا ہے کہ اصل موسیقی دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اترتی ہے۔ سچن دیو برمن کے جانے کے بعد بھی ایک ہی نغمہ ان کے چاہنے والوں کے دل میں گونجتا رہتا ہے، ’او جانے والے ہوسکے تو لوٹ کے آنا‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔