طلعت محمود، جن کے نغمے دل میں خاص کیفیت پیدا کرتے ہیں

طلعت محمود جنہیں حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا تھا، 9 مئی 1998 کو ممبئی میں ان کا انتقال ہوا۔ آج بھی ان کے نغمے دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور پندرہ سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا۔ ان کے والد بھی گلوکار تھے۔ یہ اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے۔ ان کے والد اپنی آواز کو اللہ کا دیا ہوا گلا کہہ کر اللہ کو ہی وقف کرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ وہ صرف نعت گانے کے لئے مشہور تھے۔

بچپن میں طلعت نے اپنے والد کی آواز کی نقل کرنےکی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ ان کی خالہ ان کی سریلی آواز سنتی تھیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نے ہی اپنی ضد پر طلعت کو موسیقی سکھانے کے لئے ماریش کالج میں داخل بھی کروایا۔ سولہ سال کی عمر میں طلعت کو کمل داس گپتا کا گیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘ گانے کا موقع ملا اور یہ نغمہ لکھنؤ میں کافی مشہور ہوا۔ تقریباً ایک سال بعد معروف ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی کی ٹیم کلکتہ سے لکھنؤ پہنچی اور پہلے ان کے دو گانے ریکارڈ کئے۔ پھر اس کے بعد طلعت کے چار اور گانوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔

ہندی فلموں کے لیجنڈ گلوکار طلعت محمود نے بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔

ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں‘، ’جلتے ہیں جس کے لیے‘، ’اے غمِ دل کیا کروں‘، ’پھر وہی شام وہی غم‘، ’شامِ غم کی قسم‘، ’حسن والوں کو‘، ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ‘، ’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘، ’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘، ’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘، ’‘، ’اے میرے دل کہیں اور چل‘، ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان‘، ’اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا‘، ’راہی متوالے ‘، ’زندگی دینے والے سُن‘، ’دیکھ لی تیری خدائی‘، ’ہم درد کے ماروں کا‘، ’اندھے جہاں کے اندھے راستے‘، ’کوئی نہیں میرا اس دنیا میں‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا‘، ’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘، ’نبے چین نظر بے تاب جگر‘، ’آئی جھومتی بہار‘، ’ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے وقت ان دنوں پس منظر میں گانے کی شروعات کا دور تھا۔ بیشتر اداکار اپنے گانے خود ہی گاتے تھے۔ کندن لال سہگل کی شہرت سے تحریک پاکر طلعت بھی گلوکار-اداکار بننے کے لئے کولکتہ پہنچے جو اس وقت ان سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ کولکتہ میں طلعت کی شروعات ایک بنگلہ گیت سے ہوئی۔ ریکارڈنگ کمپنی نے گلوکار کے طور پر ان کو تپن کمار کے نام سے ان کے گانے ریکارڈ کئے۔ تپن کمار کے گائے ہوئے سو سے زائد نغمے ریکارڈوں میں آئے۔

طلعت محمود، جن کے نغمے دل میں خاص کیفیت پیدا کرتے ہیں

نیو تھیٹرس نے 1945 میں بنی فلم راج لکشمی نے طلعت کو ہیرو-گلوکار بنایا۔ سنگیت کار رابن چٹرجی کی ہدایت میں اس فلم میں ان کے گائے ’جاگو مسافر جاگو‘ گانے کو سراہا گیا۔ خوش ہوکر طلعت نے ممبئی کا رخ کیا اور انل بسواس سے جاکر ملے۔ انل دا نے یہ کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا کہ ہیرو بننے کے لئے وہ بہت دبلے پتلے ہیں اور وہ مایوس ہوکر واپس کولکتہ چلے گئے۔ لیکن طلعت محود نے حوصلہ نہیں ہارا۔ کچھ وقت گذارنے کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر ممبئی کا رخ کیا۔ اس مرتبہ انل بسواس نے انہیں فلمستان اسٹوڈیو کی فلم آرزو میں پردے کے پیچھے سے گانے کا موقع دیا۔ دلیپ کمار کے اوپر فلمایا گیا نغمہ ‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’ ہٹ ہوگیا اور طلعت کی کپکپاتی آٓواز سنگیت کاروں کی نگاہ میں جم گئی۔

اسی وقت سنگیت کار نوشا د اپنے لئے ایک من پسند گلوکار کی تلاش میں تھے۔ فلم بابل کے لئے طلعت کو ایک بار پھر دلیپ کمار کے لئے گانے کا موقع ملا۔ تاہم بالی ووڈ میں انہیں گانے کا موقع 1950 میں دلیپ کمار کی فلم ’آرزو‘ سے ملا جس کے گیت ’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو‘ نے انہیں معروف کر دیا۔ ایک اور فلم کا نغمہ ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا، جس میں طلعت اور شمشاد بیگم کی آواز کو بے انتہا پسند کیا گیا۔ اسی طرح فلم ’داغ‘ کا اسی سے ملتاجلتا گیت، اے میرے دل کہیں اور چل اور ہم درد کے ماروں کا، نے انہیں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے، جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اسی سال طلعت نے مختلف سنگیت کاروں کی دھنوں پر تقریباً 16 گانوں کو اپنی آوا ز دی۔ ان گانوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ لیکن طلعت کو سگریٹ نوشی کا زیادہ ہی شوق تھا جو ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ وہ سیٹ پر بہت زیادہ سگریٹ پیا کرتے تھے۔ ان کی یہ عادت نوشاد کو پسند نہیں تھی، جس کی وجہ سے سنگیت کار نوشاد نے انہیں نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ ساٹھ کی دہائی شروع ہوتے ہی فلموں میں ان کے گانے بہت کم ریکارڈ ہونے لگے۔ فلم سجاتا کا نغمہ جلتے ہی جس کے لئے ان کا یادگار نغمہ ہے۔ فلموں میں آخر بار انہوں نے 1966 میں فلم جہاں آرا میں گایا، جس کے سنگیت کار مدن موہن تھے۔


وقت کے ساتھ ساتھ فلموں میں سنگیت کی طرز بھی بدلنے لگی، اس میں طلعت جیسی آواز کے لئے گنجائش نہیں تھی ۔ لیکن طلعت کی غیر فلموں میں گانے کا سلسلہ برقرا ر رہا اور ان کے البم جاری ہوتے رہے۔ غزل کے تو وہ بادشاہ تھے۔ مانو ان کی آواز جیسے قدرت نے غزل کے لئے ہی بنائی تھی۔ سنہ 1944 میں ان کے ایک غیر فلمی گیت ’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ چونکہ شکل و صورت سے بھی طلعت محمود ایک خوبصورت انسان تھے لہٰذا کئی فلمسازوں نے انہیں اپنی فلموں میں بطور ہیرو بھی سائن کیا۔ لیکن فلموں میں انہیں زیادہ کامبابی نہیں مل سکی جتنی انہوں نے اپنی آواز کے ذریعہ شہرت حاصل کی۔ طلعت محمود نے المیہ گانے زیادہ گائے ہیں، اسی لیے انہیں دکھ درد اور کرب کا ترجمان مانا جاتا ہے۔اسی لیے مدھم سُروں میں ان کے گائے گئے گانوں کو سن کر غم دھیرے دھیرے اندر اترنے لگتا ہے۔

طلعت محمود نے آٹھ سو سے زائد فلمی گیت گائے، جن میں سے چند بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جیسے ‘جلتے ہیں جس کے لئے، اے غمِ دل کیا کروں، تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی، پھر وہی شام، پیار پر بس تو نہیں اور میرا پیار مجھے لوٹا دو زبان زد عام ہوئے۔

طلعت محمود کو سن 1956 میں اسٹیج پروگرام کے لئےجنوبی افریقہ بلایا گیا۔ اس طرح کے پروگرام کے لئے ہندستان سے کسی بھی فلمی اداکار کے جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔ طلعت محمود کا پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ جنوبی افریقہ نے کئی شہروں میں ان کے تقریباً 22 پروگراموں کا انعقاد کرایا۔ جس کے بعد تو ایسا لگا کہ ہندستانی فلمی اداکاروں کے اسٹیج پروگراموں کا غیر ملکوں میں سلسلہ شروع ہوگیا۔

طلعت محمود ان پروگراموں میں مسلسل مصروف رہے۔ آئے دن ملک اور بیرونی ممالک میں طلعت محمود نائٹ شوز ہونے لگے۔ طلعت محود کو 1992 میں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا اور حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ 9 مئی 1998 کو ممبئی میں طلعت محمود کا انتقال ہوا، تاہم آج بھی ان کے نغمے دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔