راجکمار: پولیس کی وردی چھوڑ کر اداکاری کا رخ کرنے والے مکالمات کے شہنشاہ

بلوچستان میں پیدا ہونے والے کلبھوشن پنڈت عرف راجکمار نے پولیس کی وردی چھوڑ کر اداکاری کا رخ کیا۔ منفرد آواز اور بااثر مکالمات کے ذریعے وہ ہندی سنیما کے لازوال اداکار بن گئے

<div class="paragraphs"><p>معروف اداکار راجکمار</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی سنیما کی دنیا میں کئی ستارے اپنی اداکاری کے ذریعے ناظرین کے دلوں پر چھا گئے مگر ایک نام ایسا ہے جو اپنی آواز، انداز اور مکالمات کے ذریعے الگ پہچانا گیا، ان کا نام ہے کلبھوشن پنڈت عرف راجکمار۔ 8 اکتوبر 1926 کو صوبہ بلوچستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہونے والے راجکمار نے ابتدا میں فلمی دنیا کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ بی اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ممبئی کے ماہم پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔

ایک رات گشت کے دوران ایک سپاہی نے ان سے کہا، ’’حضور، آپ رنگ، ڈھنگ اور قد کے لحاظ سے کسی ہیرو سے کم نہیں۔ فلموں میں آئیں تو لاکھوں دلوں پر راج کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ راجکمار کے دل میں اتر گیا۔

جس تھانے میں وہ تعینات تھے وہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ فلم ساز بلدیو دوبے بھی ایک روز کسی کام سے وہاں آئے اور راجکمار کے بات کرنے کے انداز سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں اپنی فلم ’شاہی بازار‘ میں کردار کی پیشکش کر دی۔ راجکمار پہلے ہی اداکار بننے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انہوں نے فوراً نوکری سے استعفیٰ دیا اور فلم انڈسٹری میں قدم رکھ دیا۔

تاہم، شاہی بازار کی تیاری میں وقت لگ گیا اور زندگی کی گزر بسر مشکل ہو گئی۔ ایسے میں انہوں نے 1952 میں فلم رنگیلی میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کیا۔ یہ فلم آتے ہی گم ہو گئی۔ جلد ہی شاہی بازار ریلیز ہوئی مگر باکس آفس پر ناکام رہی۔ فلم کی ناکامی کے بعد رشتہ داروں نے طنز کیا کہ ’’تمہارا چہرہ فلموں کے لیے موزوں نہیں۔‘‘ کچھ نے مشورہ دیا کہ وہ ولن کا کردار کریں مگر راجکمار نے ہمت نہ ہاری۔


انہوں نے 1952 سے 1957 تک مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔ رنگیلی کے بعد انمول سہار، اوسر، گھمنڈ، نیل منی اور کرشن سداما جیسی فلموں میں کام کیا مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ پھر قسمت نے ان پر مسکرا کر دیکھا۔ 1957 میں محبوب خان کی تاریخی فلم مدر انڈیا میں وہ ایک کسان کے مختصر کردار میں نظر آئے۔ فلم کا محور نرگس تھیں مگر راجکمار نے اپنی گہری آواز اور اثر انگیز مکالمہ گوئی سے ناظرین پر تاثر چھوڑا۔

اس فلم نے انہیں بین الاقوامی شناخت دی۔ اب فلمساز انہیں سنجیدگی سے لینے لگے۔ 1959 میں آئی فلم پیغام میں ان کے مدمقابل شہنشاہ جذبات دلیپ کمار تھے۔ اتنے بڑے اداکار کے سامنے بھی راجکمار نے اپنی موجودگی کا بھرپور انداز میں اعتراف کرایا۔ اسی دور میں دل اپنا اور پریت پرائی، گھرانہ، گودان، دل ایک مندر اور دوج کا چاند جیسی فلموں نے ان کی شہرت کو مضبوط کیا۔ اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں کردار وہ خود منتخب کرتے تھے۔

1965 میں آئی کاجل کی زبردست کامیابی نے انہیں صفِ اول کے اداکاروں میں لا کھڑا کیا۔ اسی سال بی آر چوپڑا کی فلم ’وقت‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔ فلم کے مکالمے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں، ’چنائے سیٹھ، جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پہ پتھر نہیں پھینکا کرتے۔‘ اور ’یہ چاقو ہے بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں، ہاتھ کٹ جائے تو خون نکل آتا ہے۔‘ ان مکالمات نے راجکمار کو ’شہنشاہِ مکالمات‘ کا خطاب دلوایا۔

فلم وقت کی کامیابی کے بعد انہوں نے نیل کمل، میرے حضور، ہیر رانجھا اور پاکیزہ جیسی فلموں میں کام کیا۔ اگرچہ یہ فلمیں زیادہ تر رومانوی پس منظر رکھتی تھیں، جو ان کے سنجیدہ مزاج سے مختلف تھا، پھر بھی وہ ہر کردار میں شائستگی اور وقار کے ساتھ چھا گئے۔


پاکیزہ بلاشبہ مینا کماری پر مرکوز فلم تھی لیکن راجکمار کے ادا کیے گئے چند مناظر ناظرین کے ذہنوں میں امر ہو گئے۔ خاص طور پر ان کا مشہور مکالمہ، ’آپ کے پاؤں دیکھے، بہت حسین ہیں۔ انہیں زمین پر مت رکھئے گا، میلے ہو جائیں گے۔‘ یہ جملہ فلمی تاریخ کے یادگار مکالمات میں شامل ہوگیا اور ان کی مخصوص آواز نقالی کا مرکز بن گئی۔ 1978 کی فلم کرمیوگی میں انہوں نے دوہرا کردار ادا کیا، جس نے ان کی اداکاری کے نئے پہلو اجاگر کیے۔

1991 میں سبھاش گھئی کی فلم سوداگر میں وہ دوبارہ دلیپ کمار کے ساتھ نظر آئے۔ پیغام کے بعد ایک بار پھر دو بڑے اداکار آمنے سامنے تھے اور ناظرین اس فلم کو تاریخی جوڑی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں راجکمار نے فلموں سے خود کو بتدریج دور کر لیا۔ ترنگا، پولیس اور مجرم، انسانیت کے دیوتا، بے تاج بادشاہ اور جواب جیسی فلمیں ان کے آخری دور کی یادگار فلمیں ہیں۔

ان دنوں وہ اکثر تنہا رہنے لگے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے بیٹے پرو راجکمار کو بلایا اور کہا، ’’بیٹا، موت اور زندگی انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ میری موت کے بارے میں صرف چیتن آنند کو بتانا، باقی دنیا کو میری آخری رسومات کے بعد خبر دینا۔‘‘ یہ جملہ بھی ان کے مکالموں کی طرح وقار اور گہرائی سے بھرا ہوا تھا۔ تقریباً چار دہائیوں تک اپنی گہری آواز، شاندار لب و لہجے اور منفرد شخصیت سے ناظرین کے دلوں پر حکومت کرنے والے راجکمار 3 جولائی 1996 کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔

راجکمار صرف فلموں کے اداکار نہیں تھے، وہ لہجے، الفاظ اور خاموشی کو بھی اداکاری میں ڈھالنے والے فنکار تھے۔ ان کی موجودگی میں ہر مکالمہ بھاری لگتا تھا، ہر منظر مکمل محسوس ہوتا تھا۔ ان کی آواز میں وہ رعب اور تاثر تھا جس نے ہندی سنیما میں ڈائیلاگ ڈیلیوری کو ایک فن میں بدل دیا۔ راجکمار آج بھی فلمی دنیا میں اپنی انوکھی شناخت کے ساتھ زندہ ہیں — ایک ایسا نام جس کے لہجے میں اداکاری کا وقار اور شخصیت کا جلال بولتا تھا۔

(مآخذ یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔