پران: اداکاری کا وہ ستون جس نے ولن کے کردار کو نئی شناخت دی
پران نے ولن کی حیثیت سے بالی وڈ میں ناقابلِ فراموش مقام حاصل کیا۔ منفی کرداروں سے شہرت پانے والے اس فنکار نے 350 سے زائد فلموں میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا

تصویر سوشل میڈیا
ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایسے فنکار بہت کم ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں ایسا مقام بنایا ہو کہ ان کے نام سے کردار یاد رکھے جائیں۔ پران کرشن سکند، جنہیں دنیا صرف پران کے نام سے جانتی ہے، ان ہی نایاب اداکاروں میں شامل تھے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جب فلمی دنیا میں ہیرو کی طرح ولن کا کردار بھی مرکزی اہمیت اختیار کرنے لگا تو اس مقام پر پران نے اپنی پہچان اس انداز میں بنائی کہ ناظرین کو اسکرین پر صرف ایک اداکار نظر آتا، ’پران صاحب۔‘
پران 12 فروری 1920 کو دہلی کے تاریخی علاقے بلی ماران میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کیول کرشن سکند ایک سول انجینئر تھے اور والدہ رامیشوری ایک گھریلو خاتون۔ تعلیم کے دوران پران کی ریاضی میں خاص دلچسپی تھی اور فوٹوگرافی ان کا شوق بن چکی تھی۔ یہ شوق انہیں دہلی سے شملہ لے گیا جہاں انہوں نے ایک بار رام لیلا میں سیتا کا کردار نبھایا۔ یہیں سے اداکاری کا بیج شاید دل میں بویا گیا۔
ایک دن لاہور کی ایک پان کی دکان پر ان کی ملاقات مشہور اسکرپٹ رائٹر ولی محمد سے ہوئی، جنہوں نے پران کی شخصیت میں فلمی ہیرو دیکھ لیا۔ ابتدا میں پران نے انکار کیا مگر پھر وہ راضی ہو گئے اور 1940 کی فلم ’یملا جٹ‘ سے ان کا فلمی سفر شروع ہوا۔
پران نے 1942 سے 1946 کے دوران لاہور میں 22 فلموں میں کام کیا لیکن 1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد انہیں اپنا گھر، شہر اور کامیابیاں چھوڑ کر بمبئی آنا پڑا۔ یہاں نئے سرے سے زندگی شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ پران نے ایک ہوٹل میں کام کیا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ معروف ادیب سعادت حسن منٹو اور اداکار شیام کی مدد سے انہیں 1948 میں فلم ضدی میں کام ملا، جو ان کے کیریئر کا نیا موڑ ثابت ہوا۔
پران نے جلد ہی پہچان لیا کہ فلمی ہیرو کی دوڑ میں جگہ بنانا مشکل ہے، مگر ولن کے طور پر ان کے لیے میدان کھلا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار میں ایک خاص اسٹائل متعارف کرایا، الفاظ کو چبا چبا کر ادا کرنا، سگریٹ کے مرغولے چھوڑنا اور سرد نگاہوں سے گھورنا۔
یہی انداز ان کی پہچان بن گیا۔ آزاد، دیوداس، رام اور شیام، دل دیا درد لیا جیسی فلموں میں ان کے منفی کردار اتنے اثرانگیز ہوئے کہ مائیں اپنے بچوں کا نام ’پران‘ رکھنے سے گھبرانے لگیں۔
پران صرف منفی کرداروں تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے کشور کمار، محمود جیسے فنکاروں کے ساتھ مزاحیہ رولز بھی کیے۔ سادھو اور شیطان، چھم چھما چھم جیسی فلموں میں ان کے مزاحیہ انداز نے بھی ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ وہ 1969 سے 1982 کے دوران سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں شمار ہوتے تھے۔
اپنی شخصیت میں وہ ایک انتہائی مہذب، شائستہ اور خوش مزاج انسان تھے۔ فلموں میں چاہے جتنا بھی خوفناک کردار نبھائیں، حقیقی زندگی میں وہ سب کے لیے محبت اور عزت کا پیکر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم انڈسٹری میں لوگ انہیں احترام سے ’پران صاحب‘ کہنے لگے۔
پران نے مدھومتی (1958)، جس دیش میں گنگا بہتی ہے (1960)، اپکار (1967)، زنجیر (1973)، ڈان (1978) اور امر اکبر انتھونی (1977) جیسی فلموں میں شاندار اداکاری کی۔ زنجیر میں ان کا کردار شیر خان تو اتنا مقبول ہوا کہ لوگوں نے ولن سے ہمدردی کرنا شروع کر دی۔
رام اور شیام اور شہید جیسی فلموں میں ان کی موجودگی نے فلم کے جذبات کو ایک نئی گہرائی دی۔ پران نے 1945 میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی۔ ان کے دو بیٹے اروند اور سنیل اور ایک بیٹی پنکی ہے۔ جب امیتابھ بچن کو مالی بحران کا سامنا تھا تو پران نے 1996 کی فلم تیرے میرے سپنے اور 1997 کی مرتیوداتا میں کام صرف ان کی مدد کے لیے کیا۔ یہ ان کے انسان ہونے کی اعلیٰ مثال تھی۔
پران نے 1967، 1969 اور 1972 میں فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ 1997 میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، 2000 میں ’ولن آف دی ملینیم‘، 2001 میں پدم بھوشن اور 2013 میں سب سے اعلیٰ سنیما ایوارڈ دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔ سی این این نے انہیں ایشیا کے 25 عظیم ترین اداکاروں کی فہرست میں بھی شامل کیا۔
پران 12 جولائی 2013 کو 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے لیکن ان کا فن، ان کی یادیں اور ان کے لازوال کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ ولن ضرور تھے، مگر ایسے ولن، جو لوگوں کے دلوں میں احترام سے بس گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔