آزادی کے 70سال اور حب الوطنی سے سرشار  فلمی سفر

فلم ’پورب اور پچھم‘ سے منوج کمار کی ایک تصویر
فلم ’پورب اور پچھم‘ سے منوج کمار کی ایک تصویر
user

تنویر احمد

”اے وطن اے وطن ہم کو تیری قسم— تیری راہوں میں جاں تک بچھا جائیں گے“

”ہر کرم اپنا کریں گے اے وطن تیرے لیے— دل دیا ہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے“

”اے میرے وطن کے لوگو ذرا آنکھ میں بھر لو پانی— جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی“

”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے— اس دیش کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے“

یہ صرف نغمے نہیں ہیں بلکہ ان نغموں کے الفاظ میں ایسی سحر آمیزی ہے جو ہندوستان کے بچے، جوان و بوڑھے اور مرد و عورت سبھی کو اُس وقت کی یاد تازہ کراتا ہے جب ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، اور ساتھ ہی دل میں حب الوطنی کا ایک ایسا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ملک کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے۔ صرف ان نغموں میں ہی ایسی تاثیر نہیں ہے جو لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ بھر دے، بلکہ حب الوطنی پر مبنی ایسی کئی فلمیں بھی بنی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ 1950 سے 1990 تک تو ایسی کئی فلمیں بنی جنھوں نے ملک کی آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے حالات کو نہ صرف پردے پر اتارا بلکہ لوگوں کی آنکھوں میں نمی بھی لا دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی سے پہلے بھی کچھ ایسی فلمیں بنی جنھوں نے مجاہدین آزادی میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اس طرح کی فلموں پر اکثر انگریز حکومت پابندی بھی عائد کر دیتی تھی لیکن 1940 میں ریلیز ہوئی ’بندھن‘ اور 1943 میں ریلیز ہوئی ’قسمت‘ جیسی فلموں نے آزادی کے متوالوں کے دلوں میں سلگ رہی چنگاری کو شعلہ کی شکل دی اور بالآخر 1947 کو ہمارا ملک عزیز آزاد ہوا۔ آج جب ہم آزادی کی 70ویں سالگرہ منا رہے ہیں، تو 1950 کے بعد بنی حب الوطنی پر مبنی کچھ ایسی فلموں کا جائزہ لیں گے جسے دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ مجاہدین آزادی اور شہید ہونے والے ہندوستان کے جیالوں نے ’آزادی‘ کی شکل میں ہمیں کتنا انمول تحفہ پیش کیا ہے۔ ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے یہاں 1950 کے بعد ہر دہائی سے ایک منتخب فلم کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے اس کی خوبیوں کو بیان کیا جا رہا ہے۔

1950 سے 1959 کا دور:

چونکہ 1947 میں ملک آزاد ہو چکا تھا اس لیے 1950 سے 1959 کے درمیان حب الوطنی پر مبنی جو فلمیں بنیں انہیں لوگوں کا بے پناہ پیار ملا۔ اس دہائی میں ’جھانسی کی رانی‘، ’پھر صبح ہوگی‘، ’مدر اِنڈیا‘، ’نیا دور‘، ’جاگرتی‘ جیسی فلمیں بنیں اور ان سبھی کو کامیابی بھی ملی لیکن 1952 میں آئی ’آنند مٹھ‘ آج بھی اس دور کی پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے۔ 1882 میں بنکم چندر چٹرجی کے ناول ’آنند مٹھ‘ کے پلاٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیمن گپتا کی ہدایت کاری میں بنی یہ فلم اس لحاظ سے بہت عمدہ تھی کہ اس میں ملک کی آزادی کے لیے سنیاسیوں کی کاوشوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ فلم کا آغاز ہوتا ہے 1770 کی قحط سالی سے جب لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کے لیے مجبور ہو گئے تھے۔ چونکہ فلم مغربی بنگال کے ارد گرد بنی ہے اس لیے بنگال کے نواب میر جعفر کی عیاشیوں اور انگریز کی غلامی کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت غریبوں پر انگریزوں کے مظالم اور راجہ مہندر و رانی کلیانی کی بے بسی کے درمیان سنیاسیوں کا انگریزوں کے خلاف علم بلند کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی، کیونکہ ظلم کوئی کب تک برداشت کر سکتا ہے۔ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ فلم میں ستیانند کا کردار بہت اہم ہے جس نے انگریز مخالف لوگوں کا ایک گروپ تیار کر رکھا تھا اور انھیں سنیاسی بنایا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ سنیاسی ہی آزادی دلائیں گے۔ فلم میں سنیاسیوں کو ڈاکو کی شکل میں پیش کیا گیا ہے لیکن وہ حب الوطن ہیں۔ انگریز ان سنیاسیوں کے خلاف اقدام بھی کرتے ہیں لیکن آزادی کے متوالے کہاں ماننے والے تھے، انھوں نے ہندوستان کو اپنی ماں تصور کیا تھا اور اس ماں کی آزادی کے لیے وہ سینہ سپر تھے۔ اس فلم نے جنگ آزادی میں سنیاسیوں کے کردار کو اُجاگر کیا جو کسی دیگر فلم میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بنکم چندر چٹرجی کا تحریر کردہ ’وندے ماترم‘ گیت بھی ’آنند مٹھ‘ کی ہی دین ہے جو آج ہندوستان کا قومی ترانہ ہے۔

1960 سے 1969 کا دور:

اس دور میں ’ہم ہندوستانی‘، ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘، ’سَن آف انڈیا‘، ’لیڈر‘، ’شہید‘، ’سکندر اعظم‘، ’سات ہندوستانی‘، ’اُپکار‘، ’فرض‘ اور ’حقیقت‘ جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ سبھی فلمیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں، لیکن اس دہائی میں منوج کمار نے خود کو ایک وطن پرست اداکار کی شکل میں ثابت کیا۔ 1965 میں جب ان کی فلم ’شہید‘ ریلیز ہوئی تھی تو لال بہادر شاستری نے اُن سے گزارش کی تھی کہ ان کے نعرہ ’جے جوان، جے کسان‘ کو بنیاد بنا کر ایک فلم بنانی چاہیے۔ ان کی یہ گزارش منوج کمار نے پوری کی اور 1967 میں ’اُپکار‘ فلم ریلیز ہوئی۔ یہ فلم منوج کمار کی ہدایت کاری میں بننے والی پہلی فلم بھی تھی اور ناظرین نے اسے اس قدر پسند کیا کہ وہ ’بھارت کمار‘ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ ’اُپکار‘ فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ بھارت (منوج کمار) اور پورن (پریم چوپڑا) دو بھائی ہیں لیکن غریبی کے سبب دونوں کا تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ بھارت نے قربانی دیتے ہوئے پورن کو شہر پڑھنے کے لیے بھیج دیتا ہے اور خود کھیتی کرنے لگتا ہے۔ لیکن پورن جب تعلیم حاصل کر واپس آتا ہے تو وہ بہت بدل چکا ہوتا ہے اور غلط طریقے سے پیسہ بنانے اور غریبوں کو بے وقوف بنانا شروع کر دیتا ہے۔ فلم میں چرن داس (مدن پوری) کا کردار دونوں بھائیوں کے درمیان تلخی پیدا کرنے کا کام کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پورن جائیداد میں تقسیم کی بات کرتا ہے۔ بھارت اس بات سے رنجیدہ ہو کر سب کچھ چھوڑ کر ہند-پاک جنگ میں شامل ہونے کے لیے سپاہی بن جاتا ہے۔ پوری فلم ملک میں کسان اور جوان کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہے اور لوگوں میں بھائی چارہ کا پیغام بھی دیتی ہے۔

1970 سے 1979 کا دور:

’پریم پجاری‘، ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’للکار‘، ’پورب اور پچھم‘ 1970 سے 1979 کے درمیان ریلیز ہونے والی ایسی فلمیں ہیں جو یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کے موقع پر مختلف فلمی چینلوں پر دکھائی جاتی ہیں۔ منوج کمار نے اپنی ہدایت کاری کا جوہر دکھاتے ہوئے ایک بار پھر بہترین کہانی پر مبنی بے مثال فلم ’پورب اور پچھم‘ ناظرین کے سامنے پیش کی۔ یہ فلم ہندوستان اور برطانیہ کی تہذیبوں اور رہن سہن کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ فلم کا آغاز 1942 کی غلامی کے دور سے ہوتا ہے اور پھر ملک کی آزادی کے بعد کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ بھارت یعنی منوج کمار تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہندوستانیوں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں اور ہیچ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہرنام (پران) جو کہ ہندوستانی ہے اور آزادی سے قبل انگریزوں کے لیے مخبری کا کام کرتے ہوئے ہندوستانیوں کے ساتھ غداری کرتا ہے، وہ بھی برطانیہ میں اس طرح زندگی گزارتا ہے جیسے اسے ہندوستانیوں سے کوئی محبت نہیں۔ فلم کی کہانی کا دلچسپ واقعہ وہ ہے جب برطانیہ میں بھارت کمار کے سامنے ہی لوگ ہندوستان اور ہندوستانیوں کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ ایسے موقع پر ’ہے پریت جہاں کی ریت سدا‘ نغمہ کے ذریعہ بھارت کمار برطانوی اور وہاں بسے ہندوستانی لوگوں کو ہندوستان کی اصل حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ اس کے بعد جب برطانوی ماحول میں رَچی بسی پریتی (سائرہ بانو) کو بھارت کے اصولوں اور اس کی شخصیت سے محبت ہو جاتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو مجبوراً بھارت کو تیار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ پریتی کو انڈیا میں رہنا قبول نہیں۔ بھارت ایسی صورت میں پریتی سے گزارش کرتا ہے کہ وہ اِنڈیا میں کچھ دن گزارے، اگر اسے ٹھیک نہ لگے تو واپس دونوں برطانیہ میں آ کر رہیں گے۔ دراصل بھارت کو اپنے ملک سے محبت تھی اور اسے یقین تھا کہ یہاں کی مٹی سے پریتی کو بھی پیار ہو جائے گا اور فلم کے آخر میں ہوا بھی یہی۔ پریتی گاؤں کے لوگوں کی محبت اور اپنے پن سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اِنڈیا کی ہی ہو کر رہ گئی۔

1980 سے 1989 کا دور:

اس دور میں حب الوطنی پر مبنی فلمیں بننے کا دور کچھ کم سا ضرور ہو گیا لیکن ’کرانتی‘، ’گاندھی‘، ’دیش پریمی‘ اور ’کرما‘ جیسی فلمیں نوجوانوں میں دیش پریم کا جذبہ پیدا کرنے میں پوری طرح کامیاب رہیں۔ گزشتہ دہائیوں کی طرح اس دہائی کی فلموں کی کہانی تھوڑی الگ ضرور تھی لیکن بدلتے ہوئے دور میں فلموں کا انداز بدلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس دہائی میں مہاتما گاندھی کی حیات و خدمات کا احاطہ کرتی ہوئی فلم ’گاندھی‘ اور دلیپ کمار کی بہترین اداکاری سے مزین ’کرما‘ جیسی فلموں کے درمیان فلم ’کرانتی‘ نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ہدایت کاری بھی منوج کمار نے ہی کی اور وہ حب الوطنی پر مبنی فلموں کے ’سپر اسٹار‘ کہے جانے لگے۔ ’کرانتی‘ کی کہانی ہے 1825 سے 1875 کے غلام ہندوستان کی جس میں انگریزوں نے ہندوستانیوں پر قہر برپا کر رکھا تھا۔ رام گڑھ کا راجہ مارا جا چکا تھا اور اس کا الزام سانگا (دلیپ کمار) پر ڈالا گیا تھا۔ لیکن سانگا کسی طرح گرفت سے چھوٹ جاتا ہے اور ’کرانتی‘ کے نام سے ایک گروپ بناتا ہے جو ملک کی آزادی کے لیے لڑائی شروع کر دیتا ہے۔ دھیرے دھیرے ’کرانتی‘ کے نام سے مختلف علاقوں میں کئی گروپ بن جاتے ہیں جس سے انگریزوں اور انگریزوں کا ساتھ دینے والے بزدل ہندوستانیوں کے لیے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بھارت (منوج کمار) اور کریم خان (شتروگھن سنہا) تو آزادی کے متوالے تو تھے ہی، یووراج شکتی (ششی کپور) بھی انگریزوں کی عیاری کو سمجھ جاتا ہے اور ’کرانتی‘ کا ساتھ دیتا ہے۔ سب مل کر ملک کے غداروں اور انگریزوں سے زبردست مقابلہ کرتے ہیں۔ انگریزوں کا پرچم نیچے کرتے ہیں اور کرانتی کا پرچم لہراتے ہیں۔ آخر میں بھارت اور کریم خان جیسے مجاہدین آزادی شہید ہو جاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے ایک نئی نسل چھوڑ جاتے ہیں تاکہ ’کرانتی‘ جاری رہے۔

1990 سے 1999 کا دور:

اس دہائی میں حب الوطنی پر مبنی ’پرہار‘، ’کہرام‘ اور ’ترنگا‘ جیسی اینگری ینگ مین ٹائپ کی فلمیں زیادہ بنیں، لیکن اس میں ’سرفروش‘ جیسی سبق آموز اور ’بارڈر‘ جیسی شاندار فلم بھی ناظرین کو دیکھنے کو ملی۔ ایسے وقت میں جب نانا پاٹیکر اور راج کمار جیسے ہیرو نے نوجوانوں میں جوش بھر دینے والے کرداروں سے مزین فلمیں کیں، ’بارڈر‘ ایک ایسی فلم کی صورت میں سامنے آئی جس نے لوگوں کی آنکھیں نم کر دیں۔ جے پی دتہ کی ہدایت کاری میں بنی یہ فلم 1971 میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم کی خوبی یہ ہے کہ کہانی صرف سرحد پر جنگ کے حالات کو پیش نہیں کرتی ہے بلکہ فوجیوں کے خاندان اور جذباتی رشتوں کو بھی بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ دھرم ویر (اکشے کھنہ) کی اپنی ماں (راکھی) اور معشوقہ کملا (پوجا بھٹ) سے انسیت کا معاملہ ہو یا لالا راجپوت (سنیل شیٹی) کا سہاگ رات کے اگلے ہی دِن جنگ کے مدنظر ڈیوٹی جوائن کرنے کی مجبوری، متھرا داس (سدیش بیری) کی بزدلی کے حب الوطنی میں بدلنے کا معاملہ ہو یا ائیر فورس افسر اینڈی (جیکی شراف) کی بے بسی، سب کچھ اتنے اچھے انداز میں دکھایا گیا ہے کہ ناظرین کی پلکیں بھی نہیں جھپکتیں اور آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ میجر کلدیپ کی شکل میں سنی دیول کے کردار کو تو فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ محض 120 جوانوں کے ذریعہ ٹینک سے مزین پاکستانی فوج کا سامنا کرنے کی منظرنگاری جے پی دتہ نے بہت خوب کی ہے۔ پاکستانی فوج میدان چھوڑ کر بھاگتے ہیں لیکن دھرم ویر، سنیل شیٹی اور متھرا داس کی شہادت ان کے گھر والوں کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن جاتی ہے۔ اسی لیے تو فلم کے آخر میں کہا گیا ہے کہ:

”جنگ تو چند روز ہوتی ہے — زندگی برسوں تلک روتی ہے“

2000 سے 2010 کا دور:

اس دہائی میں ’دی لیجیڈ آف بھگت سنگھ‘، ’ٹینگو چارلی‘، ’اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو‘، ’چک دے‘، ’منگل پانڈے‘، ’ایل او سی کارگل‘، ’لکشیہ‘، ’ہیروز‘ ، ’نیتا جی سبھاش چندر بوس‘، ’زمین‘، ’دیوار‘، ’مشن کشمیر‘، ’غدر: ایک پریم کتھا‘، ’ماں تجھے سلام‘، ’پنجر‘، ’رنگ دے بسنتی‘ فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں حب الوطنی کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن افسوس ہے کہ دو چار فلمیں ہی ایسی ہیں جو قابل ذکر ہے۔ ’غدر: ایک پریم کتھا‘، ’رنگ دے بسنتی‘ اور ’پنجر‘ جیسی فلموں کو چھوڑ دیا جائے تو بقیہ فلمیں وطن پرستی کی کہانی سمیٹے ہوئے ضرور ہیں لیکن ایسی نہیں ہیں جو آج کی نسل میں جوش پیدا کر سکیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جب وطن پرستی سے متعلق اچھی فلمیں بنانے کا دور ختم ہو چکا تو 2001 میں آسوتوش گواریکر کی ہدایت کاری میں فلم ’لگان‘ منظر عام پر آئی۔ اس فلم نے نوجوانوں میں حب الوطنی کا ایسا جذبہ جگایا کہ وہ ’او متوا سن متوا تجھ کو کیا ڈر ہے رے اپنی یہ دھرتی ہے اپنا امبر ہے رے‘ نغمہ پر سنیما ہال میں ہی جھومنے پر مجبور کر دیا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے فلم کی اسکرپٹ اس لگان کے ارد گرد لکھی گئی ہے جو انگریز ہندوستانی کسانوں سے لیا کرتے تھے۔ لیکن فلم کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ لگان معاف کرنے کے لیے انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان کرکٹ میچ کا کھیل ہوا۔ ایک طرف انگریز کرکٹ میں ماہر تھے تو دوسری طرف ہندوستانیوں کو نہ ہی بیٹ پکڑنا آتا تھا اور نہ ہی گیند۔ پھر بھی بھُون (عامر خان) کی قیادت میں جس طرح کی کرکٹ فلم میں کھیلا گیا اس نے آخر لمحے تک ناظرین کو سیٹ سے باندھے رکھا۔ فلم کے آخر میں جب ہندوستانی ٹیم فتحیاب ہوتی ہے اور انگریزوں کو لگان معاف کرنا پڑتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک غلام ملک کو آزادی مل گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔