فلم ریویو... وشال بھاردواج کے ’پٹاخہ‘ میں ہے دَم

’پٹاخہ‘میں ہدایت کار وشال بھاردواج اپنے پورے رنگ میں نظر آئے ہیں۔ اگر آپ نے بچپن میں کبھی بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑے کا تجربہ کیا ہے تو آپ کو چھُٹکی یعنی گیندا اور بڑکی یعنی چمپا بہت پسند ٓائیں گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

وہ بِلّیوں کی طرح لڑتی ہیں، اور لڑائی میں اگر ان کے والد درمیان میں بچاؤ کرنے کے لیے آ جائیں تو انھیں بھی لپیٹ لیتی ہیں۔ انھیں اپنے آس پاس اکٹھا ہوئی شور مچاتی بھیڑ کا بھی کوئی خیال نہیں رہتا۔ ایسا لگتا ہے مانو ایک دوسرے سے لڑائی کرنا انھیں بہت پسند ہے اور وہ الجھنے کے لیے کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈنتی رہتی ہیں۔ لیکن خدا نخواستہ اگر کوئی اور درمیان میں آئے، چاہے وہ ان کا خاص دوست ڈیپر ہی کیوں نہ ہو، تو وہ یکدم سے ایک ہو جاتی ہیں۔

لیکن وہ دونوں اتنا لڑتی کیوں ہیں؟ یہاں تک کہ ان پر جان چھڑکنے والا ان کا والد بھی یہی پوچھتا ہے۔ ڈیپر ایک مذاقیہ سی وجہ بتاتا ہے... دونوں بہنیں ہندوستان-پاکستان کی طرح ہیں جو ایک دوسرے سے لڑنے کا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ لیکن اس مذاق میں گہرے معنی بھی پوشیدہ ہیں۔ بار بار ہندوستان-پاکستان کا ذکر، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا یہ بیان کہ آپ اپنے دوست تو چن سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں، رشتے تو چن سکتے ہیں لیکن رشتہ دار نہیں، کے بھی گہرے مطلب ہیں۔ یہاں تک کہ پس منظر میں گلے ملتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا پوسٹر بھی کسی سیاسی طنز سے کہیں زیادہ سیاسی تبصرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور آخر میں، کہانی سنانے والے کے ذریعہ عظیم سیاست کے تئیں اپنے انسانی نظریے کو واضح کر دیتے ہیں۔

دیہی کرداروں، پس منظر اور دیہی کچے پن میں چھپی پختگی کو پردے پر اتارنے میں وشال بھاردواج ماہر ہیں۔ نہ صرف پوری فلم کا ماحول اور کردار بلکہ ڈائیلاگ اور میک اَپ کی باریکیوں، یہاں تک کہ بیڑی پینے والی دونوں بہنوں کے پیلے دانتوں تک کا خیال رکھا گیا ہے۔ شہری پس منظر سے ہونے کے باوجود اداکارہ سانیا ملہوترا اور رادھیکا مدان دونوں نے دیہی زبان اور انداز بہت اثرانداز طریقے سے پردے پر اتار دیے ہیں۔ جب یہ دونوں بہنیں ڈیپر کے کہنے پر اپنے شوہروں کے درمیان (جو بھائی ہیں) لڑائی اور تقسیم کروا دیتی ہیں تو ایک بار پھر ہندوستان-پاکستان کا تذکرہ ہوتا ہے جو اصل میں ایک ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ہیں۔

ایک جگہ گائے کا بھی بہت علامتی اور بہترین استعمال کیا گیا ہے جو آج کل ہمارے ملک میں کافی حساس ایشو بن گیا ہے۔ لیکن سبھی کچھ دیہی سادگی، معصومیت اور بھولے ن سے بھرا نظر آتا ہے۔ یہ ہدایت کار کی ایک اور بڑی خاصیت ہے کہ وہ بڑی معصومیت کے ساتھ بہت گہری بات کہہ جاتے ہیں۔

الگ ہونے کے بعد بھی دونوں بہنوں میں ایک دوسرے کا خیال چھوٹتا نہیں بلکہ اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ اتنا مضبوط کہ دونوں بیمار ہو جاتی ہیں۔ ایک کی آواز چلی جاتی ہے تو دوسری کی نظر۔ جب ڈاکٹر دونوں کی بیماری کو نفسیاتی بتاتے ہیں تو ایک بار پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہدایت کار ہمارے سماج کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ (بے شک ہاں!)

فلم کی کاسٹنگ غضب کی ہے۔ سنیل گروور گتھی کے کردار میں ٹی وی پر کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ اس فلم میں انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک اچھے اداکار بھی ہیں۔ وجے راج ایک اچھے اور اثردار اداکار ہیں ہی، لیکن اس فلم کی اصل طاقت ہیں سانیا ملہوترا اور رادھیکا مدان اور ان دونوں بہنوں کے شوہر کے کردار میں ابھشیک دوہن اور نامت داس۔

حالانکہ انٹرول کے بعد فلم کی رفتار کچھ دھیمی پڑتی ہے لیکن کہانی، کردار اور دیہی ہیومر کے مدنظر اتنا تو برداشت کیا ہی جا سکتا ہے۔ حالانکہ ظاہری طور پر فلم ایک پالیسی کے ساتھ چلتی ہے لیکن ہدایت کار فلم کے آخر میں کہانی کے ’سبق‘ کے علاوہ بہت کچھ اور بھی کہہ جاتے ہیں۔ چرن سنگھ پتھک کی کہانی ’دو بہنیں‘ پر مبنی اس اچھی اور اتنی مختلف سطحوں پر اپنی بات کہتی فلم شاید ہی کوئی دوسرا بنا پاتا۔

...

(نوٹ: یہ سنیما ہال والے فلم سے پہلے قومی ترانہ بجانا کب بند کریں گے؟ یہ بہت عجیب لگتا ہے اور اب یہ لازمی بھی نہیں رہا۔ شاید فلم ہال مینجمنٹ کو صاف صاف ہدایت دیے جانے کی ضرورت ہے!)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔