فلم ریویو... حد سے زیادہ حب الوطنی نے ’پرمانو‘ پر منفی اثر ڈالا

فلم ’پرمانو‘ اچھی ریسرچ کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن پوری فلم پر ایک جارحانہ حب الوطنی کا ملمع چڑھا ہوا ہے جو غیر ضروری معلوم پڑتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

ہندوستان میں بھی اصل واقعات پر فلم بنانے کا رواج تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ فلمیں مثلاً ’مانجھی‘، ’پان سنگھ تومر‘، ’تلوار‘، ’نو وَن کلڈ جیسیکا‘ وغیرہ اصل واقعات سے اوپر جا کر اچھی فلموں کا نمونہ بن گئیں تو بہت سی فلمیں مثلاً ’میں اور چارلس‘، ’اظہر‘، ’بامبے ویلویٹ‘، ’رہسیہ‘ جیسی فلمیں نہ باکس آفس پر اچھا کاروبار کر سکیں نہ ہی اچھی فلموں کی طرح اپنی پہچان بنا پائیں۔

یہ افسوسناک ہے کہ لوک کہانیوں میں مشہور کردار ’پدماوت‘ پر بنی فلم پر اتنا ہنگامہ ہوا جب کہ اچھے موضوعات اور حقیقی واقعات پر بنی بہت سی فلموں پر بحث ہی نہیں ہوئی۔ ’راضی‘ جو 1971 میں ہوئے ہند-پاک جنگ کے دوران رونما اصل کہانی پر مبنی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، کے بعد اب فلم ’پرمانو‘ ریلیز ہوئی ہے جو ان واقعات پر مبنی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے جن کی وجہ سے 1998 میں پوکھرن میں ہندوستان کا نیوکلیائی تجربہ کامیاب ہوا تھا۔

’راضی‘ میں حب الوطنی کو مرکز نہ بناتے ہوئے بہت حساسیت کے ساتھ انسانی رشتوں پر زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ ’پرمانو‘ میں انسانی رشتوں کو کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے بلکہ حب الوطنی اور اس ٹیم کی قابلیت اور عزائم پر فوکس کیا گیا ہے جن کے سبب ہندوستان کا نیوکلیائی تجربہ بین الاقوامی دباؤ اور انتظامیہ کی خامیوں کے باوجود کامیاب ہو سکا۔

جان ابراہم حالانکہ ایک اوسط اداکار ہیں لیکن بطور پروڈیوسر انھوں نے کچھ اچھی فلمیں پروڈیوس کی ہیں۔ ’وِکی ڈونر‘ ایک پیچیدہ کہانی پر حساس فلم تھی تو ’مدراس کیفے‘ کی ریسرچ اور ہدایت کاری شاندار تھی۔ ’پرمانو‘ میں بھی اچھی ریسرچ کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن پوری فلم پر ایک جارحانہ حب الوطنی کا ملمع چڑھا ہوا ہے جو غیر ضروری معلوم پڑتا ہے۔ 90 کی دہائی میں کچھ سائنسدانوں، انجینئروں اور فوجی افسران کا ضرور یہ جنون رہا ہوگا کہ ہندوستان ایک نیوکلیائی طاقت بنے۔ لیکن اس جنون کی وجہ کوئی چٹکدار حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ اپنی قوت پر کچھ کر دکھانے کا جذبہ رہا ہوگا۔ اور یہیں یہ فلم مایوس کرتی ہے۔ پتہ نہیں یہ قبول کرنا ہمارے فلم والوں کے لیے مشکل کیوں ہے کہ ملک کی خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ حب الوطنی کا اپنا جذبہ ظاہر کرتے چلیں۔ آج بھی ہمارے سماج میں ایسے کئی لوگ ہیں جو ملک کی خدمت کر رہے ہیں، حب الوطنی کی خاطر نہیں بلکہ ان لوگوں کی خاطر جو ان کے آس پاس ہیں، ضرورت مند ہیں۔

لگتا ہے، فلم ہدایت کار اس جارحانہ حب الوطنی کے جذبہ سے بہت متاثر ہو گئے جو آج کل بہت فیشن میں ہے۔ ’پرمانو‘ ایک اچھی فلم ہو سکتی تھی اگر فلم کا فوکس حب الوطنی کی جگہ اس ٹیم کے لوگوں کے جنون پر ہوتا جنھوں نے تمام دقتوں کے باوجود اسے کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔ یہ حب الوطنی اور بھی مایوسی کرتی ہے جب ایک منظر میں عدم تشدد کا مذاق بنایا جاتا ہے (اس منظر میں ہیرو کا پیچھا ایک آئی ایس آئی کا جاسوس کر رہا ہے اور وہ ایک اسکول میں گھس جاتے ہیں جہاں ٹیچر کہہ رہا ہے ’عدم تشدد سب سے بڑا مذہب‘)۔

حالانکہ فلم کا آخری حصہ متاثر کرتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جب ہندوستانی ٹیم اپنانیوکلیائی تجربہ کچھ دیر کے لیے روک دیتی ہے کیونکہ ہوا کا رخ پاکستان کی طرف ہے تاکہ تجربہ کے دوران کسی کمی کے سبب اگر ریڈیشن پھیلے تو وہ پاکستان کو متاثر نہ کر پائے۔

ڈائنا پینٹی کی موجودگی فلم میں غیر ضروری لگتی ہے۔ فلم کے دیگر اداکار اوسط ہی ہیں کیونکہ کچھ خاص کرنے کو ہے ہی نہیں۔ فلم کا پلاٹ ہی اپنے آپ میں کافی پرکشش ہے۔ فلم کے ہدایت کار ’تیرے بن لادن‘ والے ابھشیک شرما ہیں۔ ابھشیک حالانکہ پردے پر سبھی حادثات کی ٹائم لائن بہت مستعدی سے دکھاتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ تین سال کے عرصہ کے بعد ہیرو کا بیٹا بڑا ہو گیا ہوگا۔

فلم میں وہ پکڑ اور ہدایت کاری میں ویسی چستی نہیں ہے جو ’مدراس کیفے‘ میں دیکھنے کو ملی تھی۔ امریکہ اور پاکستان کے مضحکہ خیز نظر آنے والے جاسوس فلم کو مزید سطحی بنا دیتے ہیں۔ لیکن ہاں، اگر آپ عام کمرشیل ہندی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُکتا گئے ہیں تو آپ کو یہ فلم دلچسپ لگ سکتی ہے۔ ورنہ ’پرمانو‘ ایک اوسط فلم ہی کہی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔