’پدماوتی‘ کو محض ایک کہانی کے نظریہ سے دیکھیں

دراصل رانی پدماوتی کا بھی تاریخ میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا لیکن لوک ادب اور فنون میں اس کہانی کو خوب سنایا جاتا رہا ہے، راجپوتوں کی فخریہ تاریخ بیان کرنے والے پدماوتی کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’پدماوتی‘ بننے کے دوران بھی تنازعہ میں رہی اور اب اس کے ریلیز میں بھی دقتیں پیش آ رہی ہیں۔ چتور گڑھ میں فلم کے خلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور تشدد کے شبہات سے شہر میں اسکول کالج بند کر دیے گئے۔ ’راجپوت کرنی سینا‘ تنظیم زور و شور سے اس فلم کی مخالفت کر رہی ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ فلم میں رانی پدماوتی کے کردار کو ٹھیک سے پیش نہیں کیا گیا ہے اور رانی پدماوتی اور علاء الدین خلجی کے درمیان معاشقہ بتایا گیا ہے۔

علاء الدین خلجی دہلی سلطنت کا ایک اہم بادشاہ تھا۔ حالانکہ اس بات کے تاریخی ثبوت نہیں ملتے کہ علاء الدین خلجی رانی پدماوتی پر فریفتہ ہو گیا تھا اور راجپوت رانی نے اس بادشاہ کے سامنے خود سپردگی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور خودکشی کر لی تھی۔ لیکن چودہویں پندرہویں صدی کے صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے اس کہانی کو اپنے مقبول نظم ’پدماوتی‘ میں بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صوفی نظریہ میں یہ ایک چلن رہا ہے کہ متھ اور لوک کہانیوں، یہاں تک کہ تاریخ کے بھی کچھ کرداروں کو سامنے رکھ کر کہانی تیار کی جاتی ہے جس کے فلسفیانہ اور روحانی معنی بھی ہوتے ہیں اور ایک حقیقی کہانی کی صورت میں یہ بہت دلچسپ نہیں ہوتی ہے۔ لیلیٰ-مجنوں کی کہانی اس کی بہترین مثال ہے۔ دراصل رانی پدماوتی کا بھی تاریخ میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ لیکن لوک ادب اور فنون میں اس کہانی کو خوب سنایا اور دکھایا جاتا رہا ہے۔ جو لوگ راجپوتوں کی قوت اور فخریہ تاریخ بیان کرتے ہیں وہ رانی پدماوتی کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔

یہی وجہ ہے کہ ’راجپوت کرنی سینا‘ کو فلم پر اعتراض ہے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ جہاں تاج محل کی تاریخ دوبارہ لکھنے کی کوشش ہو رہی ہے وہیں متھ اور لوک کہانیوں میں مشہور ایک رانی پر لکھی گئی نظم اور فلم کو لے کر لوگوں میں ناراضگی ہے۔ خیر، سنجے لیلا بھنسالی نے تو اپنی فلم کو بچانے کے لیے 160 کروڑ کا بیمہ کروا لیا ہے۔ لیکن فلم کے بارے میں کوئی بھی رائے بنانے سے قبل فلم دیکھ لینی چاہیے اور فلم کو تاریخ کا عکس نہ مانتے ہوئے اسے ’فکشن‘ اور محض ایک کہانی کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ پہلے بھی اس طرح کی فلمیں بن چکی ہیں جس کی بہترین مثال ’مغل اعظم‘، ’انار کلی‘، ’تان سین‘ اور ’جہاں آرا‘ ہے۔ حال ہی میں بنی ’باجی راؤ مستانی‘ اور کچھ سال قبل بنائی گئی ’جودھا اکبر‘ بھی اسی فہرست میں آتی ہیں۔ ان میں مشہور لوک ادب کو سامنے رکھ کر اس خاص دور کو پردے پر اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی فلموں میں تاریخی عنصر بہت زیادہ نہیں ہے۔

تعمیریت کی پہلی شرط تصور اور حقیقت کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اس آزادی کے بعد ہی ایک تخلیق، چاہے وہ فلم ہو، کہانی ہو یا نظم، کامیابی کی نئی اونچائیوں کو چھوتی ہے۔ اگر یہ آزادی نہ ہو تو اظہار رائے کی آزادی کا کوئی مطلب نہیں۔

اس لیے لازمی ہے کہ اس فلم پر ہو رہے بیجا تنازعات کو ہوا نہ دی جائے اور ’پدماوتی‘ کو محض ایک فلم کی شکل میں دیکھا جائے۔ کسی تاریخی واقعہ کی طرح نہیں۔ کیونکہ یہ دراصل تاریخی دستاویز ہے ہی نہیں۔ ایک خوبصورت نظم پر بنائی گئی بڑے بجٹ کی فلم ہے اور امید ہے کہ اچھی فلم ہوگی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔