'اداکار نہیں بن سکتے' کہنے والوں کو محمود نے قہقہوں سے جواب دیا...برسی کے موقع پر

مزاح کے شہنشاہ کہلائے جانے والے محمود نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل جدوجہد کی۔ کبھی کہا گیا کہ وہ اداکاری کے قابل نہیں، کبھی سفارش ٹھکرا دی، لیکن مسلسل محنت سے وہ 300 فلموں کے لازوال اداکار بن گئے

کامیڈی کنگ محمود / ٹوئٹر
کامیڈی کنگ محمود / ٹوئٹر
user

قومی آواز بیورو

پانچ دہائیوں تک اپنے منفرد انداز، چہرے کے تاثرات اور بے مثال مزاح سے لاکھوں دلوں کو گدگدانے والے محمود نے فلم انڈسٹری میں ’کنگ آف کامیڈی‘ کا درجہ حاصل کیا، مگر اس مقام تک پہنچنے کا سفر آسان نہ تھا۔ انہیں بارہا تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ صاف کہہ دیا گیا کہ وہ نہ تو اداکار بن سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اداکاری کی کوئی صلاحیت ہے!

29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ گھر کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں خواب تھا اداکار بننے کا، جو حالات سے بڑا نکلا۔ والد کی سفارش پر 1943 کی فلم ’قسمت‘ میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا، جو پہلا قدم تھا۔

بعد ازاں محمود نے مختلف فلمی شخصیات کے یہاں ڈرائیور کی حیثیت سے ملازمت کی، محض اس غرض سے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی حاصل ہو اور فنکاروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے۔ ایک دن قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا، فلم ’نادان‘ کی شوٹنگ کے دوران ایک جونیئر آرٹسٹ مسلسل دس بار ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار ہیرا سنگھ نے وہ مکالمہ محمود کو دیا، جو انہوں نے پہلی ہی کوشش میں ادا کر دکھایا۔ اس ایک مکالمے کے بدلے انہیں 300 روپے ملے، جبکہ وہ بطور ڈرائیور صرف 75 روپے ماہانہ کماتے تھے۔


یہی لمحہ ان کے فلمی سفر کا نقطۂ آغاز بن گیا۔ انہوں نے فوراً ڈرائیوری چھوڑ دی اور جونیئر آرٹسٹس ایسوسی ایشن میں رجسٹریشن کروایا۔ ’دو بیگھہ زمین‘، ’جاگرتی‘، ’سی آئی ڈی‘ اور ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار نبھائے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بن سکی۔

اسی دوران انہوں نے فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ دیا مگر مسترد کر دیے گئے۔ رائے دی گئی، ’’یہ کبھی اداکار نہیں بن سکتا۔‘‘ یہی نہیں، جب وہ کمال امروہی کے پاس کام مانگنے گئے تو جواب ملا، ’’ایک اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں، تم میں اداکاری کی صلاحیت ہی نہیں۔ چاہو تو کچھ پیسے دے دیتا ہوں، کاروبار شروع کر لو۔‘‘

کوئی اور ہوتا تو شاید مایوس ہو جاتا، مگر محمود نے ان باتوں کو چیلنج میں بدل دیا۔ وہ بی آر چوپڑا کی فلم ’ایک ہی راستہ‘ میں کام حاصل کر سکتے تھے لیکن چونکہ یہ کام انہیں ان کی اہلیہ کی بہن، اداکارہ مینا کماری کی سفارش پر ملا تھا، انہوں نے ٹھکرا دیا، اس اصرار کے ساتھ کہ وہ اپنی پہچان سفارش سے نہیں بلکہ اپنی محنت سے بنانا چاہتے ہیں۔

یہ جدوجہد جلد رنگ لائی۔ 1958 کی فلم ’پرورش‘ میں راج کپور کے بھائی کا کردار ان کے ہاتھ آیا، اور پھر ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ اس فلم میں انہیں 6000 روپے معاوضہ ملا اور ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔


1961 کی فلم ’سسرال‘ ان کے کیریئر کا اہم سنگ میل بنی۔ اس میں اداکارہ شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی خوب پسند کی گئی۔ اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس کے ذریعے آر ڈی برمن (پنچم دا) کو بھی پہلی بار بطور موسیقار متعارف کرایا۔

محمود نے کرداروں کی یکسانیت سے بچنے کے لیے خود کو مسلسل نئے روپ میں پیش کیا۔ 1968 کی فلم ’پڑوسن‘ میں انہوں نے جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ادا کر کے ناظرین کو حیران کر دیا۔ ’ایک چتر نار کرکے شرنگار‘ جیسا گانا آج بھی زبانوں پر ہے۔

1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں محمود نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی اداکاری کی وسعت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کئی فلمیں خود بنائیں، ہدایت کاری کی اور بعض میں گلوکاری بھی کی۔

طویل کیریئر میں تقریباً 300 فلموں میں کام کیا اور تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے۔ 23 جولائی 2004 کو محمود ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کا ہنستا چہرہ، مخصوص انداز اور لازوال مزاح آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔

(مآخذ: یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔