دلیپ کمار بھی محمود کے ساتھ کام کرنے سے جھجکتے تھے... یوم پیدائش پر خاص

محمود کا کام کرنے کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ جب کوئی شاٹ دیتے تھے تو کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ محمود کب کیا بول دیں گے اور کیا کر بیٹھیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی خبر خود محمود کو بھی نہیں ہوتی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

فلمی دنیا کے 100 سال کی تاریخ میں دس سب سے مقبول ہستیوں کی فہرست بنائیے تو آپ کو اس میں ہر حال میں محمود کا نام درج کرنا پڑے گا۔ روز مرہ کی زندگی سے چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو اپنے ڈھنگ سے پیش کر محمود نے کامیڈی اداکاری کا وہ انداز پیدا کیا تھا جو برسوں فلمسازوں کی جھولی بھرتی رہی۔ محمود کا وہ انداز آج تک لوگوں کی تفریح کر رہا ہے۔

محمود کی پیدائش ممبئی میں 29 ستمبر 1932 کو ہوئی تھی۔ ممتاز علی اور لطیف النساء کے آٹھ بچے ہوئے۔ محمود سے بڑی ایک بہن تھیں اور محمود سے چھوٹے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ محمود نے جب ہوش سنبھالا تو گھر میں تیزی کے ساتھ غریبی پاؤں پسارنے لگی تھی۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی، اپنے وقت کے مشہور ڈانس ڈائریکٹر اور ڈانسر ان کے والد ممتاز علی کی شراب پینے کی عادت۔ اور یہ کوئی چھوٹی موٹی عادت نہیں تھی، صبح سے پینا شروع کرتے تو رات ہو جاتی اور اگلے دن ہوش آنے پر پھر شروع ہو جاتے تھے۔ زیادہ تر نشے میں رہنے کی وجہ سے انھیں کام ملنا بند ہو گیا تھا۔

اُدھر اپنی شرارتوں کی وجہ سے محمود چوتھے درجہ تک پہنچتے پہنچتے چھ اسکولوں سے نکالے جا چکے تھے۔ محمود دوسروں کے بولنے اور چلنے کی اتنی بہترین نقل کرتے تھے کہ اپنی ساری حرکتوں کے باوجود اسکول اور محلے کے دوستوں میں ہمیشہ مقبول بنے رہتے۔ محمود گھر چلانے میں ہاتھ بٹا سکیں، اس کے لیے محمود کے والد نے انھیں بچپن میں ہی کیمرے کے سامنے کھڑا کر دیا۔ فلم تھی گیان مکھرجی کی ہدایت کاری والی ’قسمت‘۔

لیکن محمود کو کیمرے کا سامنا کرنا ذرا بھی پسند نہیں آیا۔ اپنے چھوٹے بھائی عثمان کے ساتھ انھوں نے سیٹ پر ٹافی اور بسکٹ کے لالچ میں کسی طرح کیمرے کا سامنا کیا، لیکن اگلے دن انھوں نے سر کے بال منڈوا لیے۔ انھیں یقین ہو گیا کہ سر منڈے لڑکے سے اداکاری نہیں کرائی جائے گی، لیکن ان کی سوچ غلط نکلی۔ گیان مکھرجی نے محمود کے بال اُگ آنے تک انتظار کیا اور پھر اداکاری کرائی۔ اس فلم میں محمود نے اشوک کمار کے بچپن کا کردار نبھایا تھا۔

اس درمیان گھر چلانے میں ماں کو بے حد پریشان ہوتا دیکھ محمود نے ٹرین میں ٹافی بسکٹ سے لے کر دوسری چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرنا شروع کر دیں، لیکن جو کمائی ہوتی وہ اتنے بڑے کنبے کے لیے کافی نہیں تھی۔ سب کچھ کرنے کے باوجود محمود اپنا کھیل کا شوق پورا کرنے کا وقت بھی نکال لیتے تھے۔ وہ ملاڈ میں کرکٹ اور ٹیبل ٹینس کے چمپئن بنے۔ ساتھ ہی وہ ڈرائیونگ کا جنون بھی پورا کرتے رہتے تھے۔ جب گھر کے خرچ پورے ہوتے نہیں دکھائی دیے تو محمود نے ڈرائیور بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن وہ اپنے والد کے دوست اور پروڈیوسر ڈائریکٹر پی ایل سنتوشی کے پاس پہنچے جو محمود کے والد کے ہنر کی بہت قدر کرتے تھے۔ انھوں نے محمود کو اپنا نجی ڈرائیور بنا لیا۔ ان کی تنخواہ تھی 75 روپے مہینہ۔

دلیپ کمار  بھی محمود کے ساتھ کام کرنے سے جھجکتے تھے... یوم پیدائش پر خاص

لیکن محمود کو زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے 20-20 روپیہ مہینہ لے کر لوگوں کو ٹیبل ٹینس کھیلنا سکھانا شروع کیا۔ ان سے ٹیبل ٹینس سیکھنے کے لیے مینا کماری اور ان کی بہن مدھو آتی تھیں۔ مدھو نے وہیں سے محمود کے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ آگے چل کر انھوں نے مدھو سے شادی کر لی۔

پی ایل سنتوشی کی فلم ’نذرانہ‘ کے ایک منظر میں مدھوبالا کے سامنے ایک اداکار ٹھیک سے ڈائیلاگ کی ادائیگی نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ سنتوشی نے پاس ہی میں کھڑے محمود سے وہ ڈائیلاگ ادا کرنے کو کہا اور محمود نے ایک ہی ٹیک میں ڈائیلاگ ادا کر دیا۔ محمود کو فلم میں رول کرنے کے لیے 300 روپے ملے۔ یعنی ان کے چھ مہینے کی تنخواہ۔ بس یہیں سے محمود زیادہ پیسہ کمانے کے لیے اداکاری کی طرف مڑ گئے۔ اس وقت تک وہ مدھو سے شادی کر چکے تھے۔ کچھ سالوں تک سخت امتحان کے دور سے گزرنا پڑا اور بے عزتی بھی برداشت کرنی پڑی۔ پھر ایک بار ان کی صلاحیت کو موقع ملا تو ملتا ہی چلا گیا۔

محمود کے ذریعہ اختیار کیے گئے کامیڈی کے نرالے انداز نے یہ حال کر دیا کہ 50 کی دہائی کے وسط سے ہر تیسری فلم میں محمود کا رول ہوا کرتا تھا۔ اپنی غیر معمولی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے محمود نے اپنا محنتانہ بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ اس دور کے کئی ہیرو محمود سے کم پیسوں پر کام کرتے تھے۔ فلم کے پوسٹروں پر محمود کا چہرہ ترجیحی بنیاد پر دکھایا جاتا تھا۔

محمود کا کام کرنے کا اپنا ڈھنگ تھا جو بے حد جارحانہ تھا۔ وہ جب کوئی شاٹ دیتے تھے تو کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ محمود کب کیا بول دیں گے اور کیا کر بیٹھیں گے۔ خود محمود کو بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ انھوں نے اپنے زیادہ تر شاٹ لائیو دیے۔ ریہرسل پر انھیں بھروسہ نہیں تھا۔

محمود کی اس عادت کی وجہ سے کئی اداکار ان سے ناراض بھی رہتے تھے تو کئی ان کے ساتھ اسکرین شیئر کرنے سے جھجکتے تھے۔ دلیپ کمار، راج کپور، شمی کپور اور دیوآنند کی فلموں میں آپ محمود کو بہت کم پائیں گے۔ دراصل اپنی غضب کی کامک ٹائمنگ، بے مثال حاضر جوابی اور اپنے کئی سین خود لکھنے کی صلاحیت کے سبب محمود پردے پر چھا جاتے تھے۔ پھر سامنے اداکاری کا کوئی بھی بادشاہ ہو وہ محمود کے اثر کو کم نہیں کر پاتا تھا۔

پانچ دہائی طویل فلمی کیریر میں محمود نے تقریباً 300 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور پھر 23 جولائی 2004 کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔