کندن شاہ: کامیڈی کے ذریعہ سنجیدہ پیغام دینے والا ڈائریکٹر، چل بسا
کندن شاہ کے انتقال کے بعد ہم نے ایک ایسا ڈائریکٹر کھو دیا ہے جس کی آج کے اس شور و غل کے ماحول میں بہت ضرورت ہے۔

کندن شاہ نہیں رہے۔ سن کر ایک جھٹکا سا لگا۔ میں، آپ اور ہم جیسے بے شمار ناظرین انہیں ذاتی طور پرنہیں جانتے تھے۔ بس جانتے ہیں تو ان کی ایک فلم ۔ ’جانے بھی دو یارو!‘ کم بجٹ میں بنائی گئی یہ فلم اس بات کی مثال ہے کہ اگر آپ تخلیقی طور پر مضبوط ہیں تو آپ کم ذرائع میں بھی بہترین پیشکش دے سکتے ہیں، پھر چاہے ذریعہ کچھ بھی ہو جیسے ڈرامہ ، سنیما یا پھر پینٹنگ۔ اہمیت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ کس انداز میں لوگوں کے سامنےظاہر کرتے ہیں۔
اپنی ایک ہی فلم سے کندن شاہ اپنے نظرین کے نزدیک پہنچ گئے تھے ۔ یہاں میں نے لفظ ’عزیز ‘نہیں بلکہ ’نزدیک ‘ استعمال کیا ہے ۔ ایسا اس لئے کیوں کہ جتنی مہارت کے ساتھ انہوں نے عام آدمی کے احساسات کی ترجمانی کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک انوکھا ہے۔ یو ں تو یہ کامیڈی فلم ہے اور شاید کشور کمار کی ہاف ٹکٹ کے بعد ایسی پہلی کامیڈی فلم رہی ہوگی جس میں ’نان سینس ‘ کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ کندن شاہ نے تو نان سینس کے ذریعہ ناظرین کو ایسا پیغام بھی دیا ہے جو کسی بھی سنجیدہ سیاسی یا سماجی تبصرے سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔

کندن شاہ اپنی ایک اور فلم اور ڈرامےکے لئے جانے جاتے ہیں۔ ’کبھی ہاں کبھی نا ‘ اور ٹی وی ڈرامہ ’نکّڑ‘۔ 1993 میں ریلیز ہوئی ’کبھی ہاں کبھی نا‘ نہ صرف شاہ رخ خان کے لئے کیریر کی ایک اہم فلم ثابت ہوئی بلکہ اپنی صاف ستھری لو اسٹوری کے لئے بہت مقبول بھی ہوئی۔ کندن شاہ کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ خوش رنگ زندگی کو تلخ حقیقت سے الگ نہیں کرتے تھے بلکہ تلخی میں بھی وہ ایک مدھم سا شیریں احساس نمایاں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردارناظرین کو اپنےدل کے بے حد قریب اور اپنے سے لگتے تھے۔ ’کبھی ہاں کبھی نا ‘ کا سنیل دراصل ہندوستان کے ایک چھوٹے سےقصبہ کا متوسط گھرانے سے وابستہ نوجوان ہے جو کہ ایک لاپرواہ بھی ہے، لیکن محبت کرنے کے بعد وہ ایک بہتر انسان بنتا ہے۔

1986-87 میں کندن شاہ کا ٹی وی سیریل نکّڑ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کی بھی خصوصیت یہی تھی کہ سارے کردار اصل زندگی کے بے حد قریب تھے جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے میں جی جان لگا دیتے ہیں۔ ان کے خواب اگر ٹوٹتے بھی ہیں تو وہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے بلکہ وہ ایک بہتر انسان کے طور پر مزید مضبوطی حاصل کرتے ہیں۔ زندگی کی تمام مشکلات اور بے بسی کے درمیان وہ اپنی امیدوں، خوابوں اور قدروں کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کندن شاہ فلمیں اور ٹی وی سیریلوں کی کہانی اور کرداروں سے ناظرین سے ایک گہرا تعلق قائم کرتے رہے۔

’جانے بھی دو یارو‘ کو بناتے وقت کندن ایک نوجوان ہدایت کار تھے ، نصیر الدین شاہ اور روی باسوانی کو ایف ٹی آئی آئی (اداکاری کا انسٹی ٹیوٹ )سے نکلے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے لئے یہ فلم ایک ذاتی تجربہ سے کم نہ تھی، کچھ کرداروں کے نام بھی ٹیم کے ارکان کے ناموں پر رکھے گئے اور کچھ کے نام اور کردار اصل زندگی سے متاثر رہے۔
1983 میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اتنی کامیاب نہیں ہو پائی لیکن جب 2000 میں لوگوں نے اسے ایک بار پھر دیکھا تو بہت پسند آئی ۔ یہ فلم کامیڈی فلموں کے لئے ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ اب بالی وڈ میں کوئی کامیڈی فلم بنتی ہی نہیں اور اگر بنتی بھی ہے تو اس کا موازنہ ’جانے بھی دو یارو ‘سے ضرور کیا جاتا ہے اور آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا۔

مجھے یاد ہے 2004 میں فلم ایپریسی ایشن کی ایک کلا س میں میں نے نوجوانوں سے اس فلم کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میں کسی آرٹ فلم کی بات کر رہی ہوں ۔ لیکن جب میں نے انہیں فلم ’جانے بھی دو یارو ‘ دکھائی تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے ان طلباء نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں اتنا سنجیدہ پیغام انہوں نے آج تک کسی فلم میں نہیں دیکھا تھا۔

دراصل کندن شاہ ان مخصوص فلم ڈائریکٹروں میں سے تھے جو اپنے کام کے ذریعہ سماج اور سیاست کے لئے مثبت پیغام دیتے تھے۔ آج کے اس شور بھرے اور بھاگم بھا گ والے ماحول میں ایسے ڈائر کٹروں کی سخت ضرورت ہے جو تفریح کے ذریعہ سماج کو آئینہ دکھاتے رہیں اور ایسے ایک تخلیق کار کو ہم نے آج کھو دیا ہے۔
بڑے بڑے بینر اور بڑےبجٹ کی فلمیں جو کہ چمک دمک سے بھر پور ہو تی ہیں، ان فلموں کے درمیان ہندوستانی معاشرہ میں عام آدمی کے احساسات، مجبوریوں اور امیدوں پر بنائی گئی فلمیں ،ہمیشہ ہمارے ذہن میں گونجتی رہیں گی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Oct 2017, 6:52 PM