کڑوی ہوا: کسانوں کے حقیقی مسائل سے روشناس کراتی فلم
یہ فلم اس معاملے میں بھی اہمیت رکھتی ہے کہ کسانوں کے ایشوز کو اصل دھارے کی فلم میں کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے جب کہ عام زندگی میں کسان انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حال ہی میں دہلی میںکسانوں کی ایک عظیم الشان ریلی ہوئی۔ ان دیہی لوگوں نے بہت امن کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنی گاﺅں واپس ہو گئے۔ کتنے تعجب کی بات ہے۔ ہمارے یہاں امن سے بات کہنے سننے کا تو جیسے چلن ہی ختم ہو گیا ہے۔ شاید اسی لیے کسانو کو بھی اتنی ترجیح نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی۔ لیکن اس ریلی نے حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ’کڑوی ہوا‘ کو اور بھی اہم بنا دیا ہے۔ کسانوں کے مسائل پر گزشتہ کچھ سالوں میں بنی شاید یہ پہلی فلم ہے۔
فلم کے ہدایت کار نیلا مادھو پانڈا پہلے ہی ’آئی ایم کلام‘ جیسی فلم سے اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔ ان کی یہ فلم اس معاملے میں بھی اہمیت رکھتی ہے کہ کسانوں کے ایشوز کو اصل دھارے کی فلم میں کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے جب کہ عام زندگی میں کسان انتہائی اہم کردار رکھتے ہیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ گزشتہ کم از کم ایک دہائی میں کسانوں کے مسئلہ پر کوئی بھی قابل ذکر فلم نہیں بنی ہے جب کہ اسی دوران کسان زبردست اور سنگین مسائل سے نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔ شاید کسانوں کے تئیں حکومت کی لاپروائی کا اثر آرٹ اور سنیما میں بھی نظر آ رہا ہے۔

بہر حال ’کڑوی ہوا‘ ایک فلم کے لحاظ سے بھی بہترین فلم ہے۔ فلم کی کہانی ایک بزرگ کسان کے مسائل پر مرکوز ہے جسے یہ خوف ہے کہ خشک سالی اور قرض کا سامنا کرتا ہوا اس کا بیٹا کہیں خودکشی نہ کر لے۔ اس کی پہلے سے ہی بڑھی ہوئی پریشانی کے درمیان جلے پر نمک کی مانند لون ریکوری ایجنٹ کیآمد ہوتی ہے جو اس بات کے لیے بدنام ہے کہ جس بھی گاﺅں میں وہ جاتا ہے دو چار کسان خودکشی کر لیتے ہیں۔
اس ایجنٹ کی بھی اپنی پریشانیاں ہیں۔ بہر حال، یہ بزرگ کسان اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ایک عجیب و غریب ترکیب نکالتا ہے۔ وہ ایجنٹ سے معاہدہ کرتا ہے تاکہ اس کا بیٹا ایجنٹ کے شکنجے میں نہ پھنس سکے۔ فلم کی کہانی تو دلچسپ ہے ہی، اس کے کرداروں کو بنانے میں بھی ہدایت کار کی محنت صاف نظر آتی ہے۔ فلم کی ویڈیوگرافی بے مثال ہے جو بدلتے موسم کے مزاج کے مطابق اور زمین کی بے رخی کو بہت اثرانداز طریقے سے سامنے لاتی ہے۔ پوری فلم کی شوٹنگ بندیل کھنڈ میں ہوئی ہے اور فلم کی بنیاد بھی ایک طرح سے فلم کے کردار ہیں۔

سنجے مشرا بزرگ والد کے کردار میں ہیں۔ اب تک سنجے مشرا کو ان کی کامیڈی کے لیے جانا جاتا رہا ہے لیکن اس کردار میں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ بطور اداکار ان کی قابلیت کا استعمال انڈسٹری ابھی تک نہیں کر پائی ہے۔ رنویر شوری قرض وصول کرنے والے ایجنٹ کے پیچیدہ کردار کو بخوبی ادا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کردار پوری طرح منفی نہیں ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل ہیں جس کے سبب وہ ’یم دوت‘ کہلانے لگتا ہے۔ حالانکہ اسے ’یم دوت‘ کہلانا اچھا نہیں لگتا۔ وہ بھی اپنے گھر والوں سے دور یہ کام کرنے کے لیے مجبور ہے جب کہ اسے یہ خوف ہے کہ کہیں اس کی فیملی اڈیشہ میں آئے سیلاب کی نذر نہ ہو جائے۔
فلم کے سنجیدہ ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی رقص یا گانا نہیں رکھا گیا ہے جو فلم کو مزید اثرانداز بناتا ہے۔ فلم تفریح کے علاوہ ہماری دنیا اور حالات پر ایک گہری نظر رکھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کا بھی کام کرتی ہے اور سماج پر اس کا اثر بھی پڑتا ہے۔ یہ فلم بھی ایسی ہی فلموں میں سے ایک ہے۔ اس طرح کی فلمیں ضرور دیکھی جانی چاہئیں تاکہ ہم شہروں میں رہنے والے لوگوں کو احساس ہو سکے کہ گاﺅں میں زندگی بسر کر رہے لوگ کس طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔