جاں نثار اختر: اے دلِ ناداں، آرزو کیا ہے، جستجو کیا ہے... خصوصی پیشکش

یہ گھر کے ماحول کا ہی اثر تھا کہ جاں نثار اختر نے 13 سال کی عمر سے شاعری شروع کر دی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے 1936 میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد وہ گوالیر کے وکٹوریا کالج میں اردو پڑھانے لگے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

اقبال رضوی

بے مثال شاعر، وفادار دوست، دردمند انسان... لیکن بے حد خراب شوہر اور غیر ذمہ دار باپ... یعنی جاں نثار اختر۔ ان کا نہ تو ایک فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے کبھی ایمانداری سے تجزیہ کیا گیا اور نہ ہی ایک شاعر کے طور پر ان کے تعاون کو یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے قلم میں وہ طاقت تھی کہ ان کے اشعار آج بھی لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔

جاں نثار اختر کے یوم پیدائش کو لے کر بھی دو تاریخیں موضوعِ بحث رہتی ہیں۔ ایک تو 8 فروری اور دوسرا 18 فروری۔ گوالیر میں سال 1914 میں پیدا ہوئے جاں نثار کے دادا فضل حق خیر آبادی اور والد مضطر خیر آبادی اپنے وقت کے استاد شاعر تھے اور ماں بھی اعلیٰ درجے کی شاعرہ تھیں۔

یہ گھر کے ماحول کا ہی اثر تھا کہ جاں نثار اختر نے 13 سال کی عمر سے شاعری کرنی شروع کر دی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے 1936 میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد وہ گوالیر کے وکٹوریا کالج میں اردو پڑھانے لگے۔ کچھ وقت بعد وہ بھوپال پہنچ کر حمیدیہ کالج میں محکمہ اردو کے صدر ہو گئے جہاں ان کی بیوی صفیہ بھی پڑھاتی تھیں۔

آزادی کے بعد جب حکومت پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن کے اراکین پر سخت نظر رکھنے لگی تو جاں نثار گوالیر سے ممبئی چلے گئےجہاں ان کے تمام ساتھی جیسے سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح، اخترالایمان اور عصمت چغتائی جیسے ادیب پہلے ہی جمع ہو چکے تھے۔ تب تک جاں نثار دو بچوں جاوید اختر اور سلمان اختر کے والد بن چکے تھے۔ صفیہ جاں نثار کو بہت چاہتی تھیں اسی لیے جب جاں نثار نے ممبئی کا رخ کیا تو فیملی سنبھالنے کی ذمہ دار ی صفیہ نے اپنے کندھوں پر لے لی۔

جاں نثار ممبئی گئے تو پھر کبھی صفیہ کے پاس واپس نہیں لوٹے۔ صفیہ لگاتار جاں نثار کو خط لکھتی رہتیں کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں انھیں دیکھنے کے لیے ہی آ جاؤ، لیکن جاں نثار نہیں لوٹے، جب کہ صفیہ جاں نثار کا ممبئی کا خرچ تب تک اٹھاتی رہیں جب تک کہ کینسر سے ان کا انتقال نہیں ہو گیا۔

ممبئی پہنچنے پر کچھ دنوں تک جاں نثار مشہور ناول نگار عصمت چغتائی کے یہاں رہے۔ روزگار کے لیے انھوں نے فلموں میں نغمہ نگاری میں ہاتھ آزمایا اور سب سے پہلے فلم ’شکایت‘ کے لیے انھوں نے نغمہ لکھا ’’کولتار میں رنگ دے پیا موری چندریا‘‘ لیکن فلم بری طرح فلاپ ہو گئی۔

اس کے بعد جاں نثار ساحر لدھیانوی کے بہت قریب ہو گئے۔ ساحر لدھیانوی اور جاں نثار کے درمیان پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن والی دوستی تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کے سب سے حسین سال ساحر لدھیانوی کی دوستی میں برباد کر دیے۔ جاں نثار طویل مدت تک ساحر کے سائے میں ہی رہے اور ساحر کے سائے سے انھیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا۔ جاں نثار کا مطلب ہوتا ہے جان نچھاور کرنے والا اور جاں نثار نے شاعری اور شراب پر پوری زندگی نچھاور کر دی۔

اس دور میں مجروح سلطان پوری نے یہ کہہ کر سنیما اور دنیائے ادب میں ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ساحر کے بہت سے نغمے جاں نثار اختر لکھتے ہیں۔ ساحر اور جاں نثار اختر دونوں کے قریبی رہے ندا فاضلی نے اپنی یاد داشت میں لکھا ہے کہ ساحر کو اپنی تنہائی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ جاں نثار اس خوف کو کم کرنے کا ذریعہ تھے جس کے عوض میں وہ ہر مہینے 2000 روپے دیا کرتے تھے۔ یہ جو افواہ اڑی ہوئی ہے کہ وہ ساحر کے گیت لکھتے تھے، یہ درست نہیں ہے لیکن یہ سچ ہے کہ وہ نغمہ لکھنے میں ان کی مدد ضرور کرتے تھے۔ کیونکہ جاں نثار اختر ضرورت سے زیادہ جلد شعر لکھنے والے شاعر تھے۔ ساحر کو ایک مصرع سوچنے میں جتنا وقت لگتا تھا، جاں نثار اتنے وقت میں 25 مصرعے جوڑ لیتے تھے۔

بہر حال سال 1953 میں ریلیز فلم ’نغمہ‘ میں شمشاد بیگم کی آواز میں ان کا نغمہ ’بڑی مشکل سے دل کی بے قراری میں قرار آیا‘ کی کامیابی سے وہ بطور نغمہ نگار اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات موسیقار او پی نیر سے ہوئی جن کے میوزک ڈائریکشن میں انھوں نے فلم ’باپ رے باپ‘ کے لیے نغمے لکھے۔ اس کے بعد ان کی اور او پی نیر کی جوڑی بن گئی۔ سال 1956 میں او پی نیر کی موسیقی سے سجی گرو دَت کی فلم ’سی آئی ڈی‘ میں ان کے لکھے نغمہ ’اے دل ہے مشکل جینا یہاں، ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے، یہ ہے ممبئی میری جاں‘ اور ’آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارا ہو گیا، بیٹھ بیٹھ جینے کا سہارا ہو گیا‘ کی کامیابی کے بعد جاں نثار اپنے ہم عصر مجروح، ساحر، کیفی اعظمی، شکیل اور شیلندر کی طرح شہرت حاصل کرنے لگے۔

جاں نثار کی ایک اور بدقسمتی یہ بھی رہی کہ انھیں کسی بھی فلم میں تنہا نغمہ نگاری کے مواقع کم ملے۔ انھوں نے تقریباً 80 فلموں میں نغمے لکھے جن میں محض 10 فلموں میں تنہا نغمہ نگاری کی۔ اس کے علاوہ ان کی نغمہ نگاری والی کئی فلمیں ریلیز ہی نہیں ہو سکیں۔

جاں نثار نے اپنے سب سے بہترین فلمی نغمے خیام کے میوزک ڈائریکشن میں لکھے۔ فلم شنکر حسین کا نغمہ ’آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے، دل سے قدموں کی آواز آتی رہی‘، پریم پربت کا نغمہ ’یہ دل اور ان کی نگاہوں کے سائے‘، فلم نوری کا نغمہ ’آ جا رے، آ جا رے او میرے دلبر آ جا‘ اور رضیہ سلطان کا نغمہ ’اے دلِ ناداں‘۔ ان سبھی نغموں میں یکسانیت یہ ہے کہ سبھی نغمے جاں نثار نے لکھے، خیام نے موسیقی دی اور ہندی فلموں کے سب سے زیادہ رومانی نغموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

جاں نثار نے جتنے شاندار فلمی نغمے لکھے اس سے کئی گنا اثردار تصنیفات ادبی دنیا کو دیں۔ سہل زبان میں اشعار لکھنے میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مثال کے لیے ان کے کچھ اشعار حاضر ہیں...

یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں

اے عشق ہماری نہ تیرے ساتھ بنے گی

---

سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی

ورنہ تو بدن آگ بجھانے کے لیے ہے

---

آنکھیں جو اٹھائیں تو محبت کا گماں ہو

نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے

یہ جاں نثار اختر کی قابلیت کی شہرت ہی تھی کہ جواہر لال نہرو نے انھیں پچھلے 300 سالوں کی ہندوستانی شاعری کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کا ذمہ سونپا تھا۔ جاں نثار کی ادارت والی کتاب ’ہندوستاں ہمارا‘ اپنی طرح کی تنہا منظوم کتاب ہے۔ 19 اگست 1976 کو ممبئی میں ہی جاں نثار کا انتقال ہو گیا۔ آج کے دور میں اب جاں نثار کو جاوید اختر کے والد کی شکل میں یاد کر لیا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔