’میرے دیش کی دھرتی‘ سے ’یاری ہے ایمان میرا‘ تک، گلشن باورا کے نغمے، جو وقت سے آگے نکل گئے
گلشن باورا کا شمار ان نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستانی فلمی موسیقی کو جذبے، جمال اور جادو سے بھر دیا۔ ان کے لکھے نغمے آج بھی سننے والوں کے دل میں تازہ ہیں۔ 7 اگست ان کی برسی کا دن ہے

ہندی سنیما کے سنہرے دور کی بات ہو اور ’میرے دیش کی دھرتی‘ یا ’یاری ہے ایمان میرا‘ جیسے نغمے یاد نہ آئیں، یہ ممکن نہیں۔ ان نغموں نے صرف فلموں کو کامیاب نہیں بنایا، بلکہ قوم، دوستی اور فرض جیسے جذبات کو گہرے اثر کے ساتھ عوام کے دلوں میں اتارا۔ ان نغموں کے خالق گلشن باورا تھے—ایک ایسا نغمہ نگار جس نے لفظوں کو جذبے میں ڈھالا اور موسیقی کو ایسی پہچان دی جو وقت کی قید سے آزاد ہو گئی۔ ان کی برسی کے موقع پر آئیے ان کے تخلیقی سفر پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
گلشن باورا، جن کا اصل نام گلشن کمار مہتا تھا، 12 اپریل 1937 کو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع شیخوپورہ (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد تعمیرات کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ تقسیمِ ہند کے ہنگامے ان کے لیے ذاتی سانحے بن کر آئے، جہاں انہوں نے اپنے والد اور چچازاد بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھو دیا۔ بعد ازاں وہ جے پور آ گئے، جہاں ان کی پرورش ہوئی اور بعد میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہیں سے شاعری کا شوق پروان چڑھا۔
فلمی دنیا سے رغبت انہیں ممبئی لے آئی، جہاں ابتدا میں انہوں نے ریلوے میں کلرک کی نوکری کرتے ہوئے نغمہ نگاری کا سفر شروع کیا۔ کلیان جی ویرجی شاہ (بعد میں کلیان جی-آنند جی) نے انہیں پہلا موقع فلم چندر سینا (1959) میں دیا، جس میں لتا منگیشکر نے ان کا گانا ’میں کیا جانو کہاں لگے یہ ساون متوالا رے‘ گایا۔ یہی ان کے فلمی سفر کی شروعات تھی۔
فلم سٹہ بازار میں ’تمہیں یاد ہوگا‘ اور ’چاندی کے چند ٹکڑوں کے لیے‘ جیسے نغمے لکھ کر انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ شانتی بھائی پٹیل نے انہیں ’باورا‘ کا لقب دیا، جو پھر ہمیشہ کے لیے ان کے ساتھ جُڑ گیا۔ اپنے تقریباً 49 سالہ کریئر میں انہوں نے تقریباً 250 گانے لکھے، جن میں کلیان جی-آنند جی کے ساتھ 69 اور آر ڈی برمن کے ساتھ 150 سے زائد نغمے شامل ہیں۔
اپکار (1968) کا نغمہ ’میرے دیش کی دھرتی‘ اور زنجیر (1974) کا ’یاری ہے ایمان میرا‘ ان کے کیریئر کی پہچان بنے، اور دونوں نے انہیں فلم فیئر ایوارڈ دلوایا۔ ان کے دیگر مشہور نغمات میں ’رفو چکر‘، ’قسم وعدے‘، ’کھیل کھیل میں‘، ’صنم تیری قسم‘، ’اگر تم نہ ہوتے‘، ’یہ وعدہ رہا‘ شامل ہیں۔
نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ وہ بطور معاون اداکار بھی تقریباً 23 فلموں میں نظر آئے۔ ان کی آخری کامیاب فلم حقیت (1995) رہی، جبکہ ظلمی (1999) ان کی آخری ریلیز تھی۔ انہوں نے انڈین پرفارمنگ رائٹس سوسائٹی (آئی پی آر ایس) کے بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں۔
طویل علالت کے بعد 7 اگست 2009 کو ان کا انتقال ممبئی کے پالی ہل علاقے میں ہوا۔ ان کی آخری خواہش کے مطابق ان کی لاش جے جے اسپتال کو میڈیکل تعلیم کے لیے عطیہ کر دی گئی—یہ فیصلہ بھی ان کے خالص انسان دوست مزاج کا غماز تھا۔
گلشن باورا کے نغمے محض گیت نہیں، جذبات کے آئینے ہیں، جنہوں نے ہر نسل کو کوئی نہ کوئی جذبہ عطا کیا۔ ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے، اور شاید آنے والے وقت میں بھی رہے گی—کیونکہ سچے جذبے، سچے بول، کبھی پرانے نہیں ہوتے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔