فلم ریویو... ’داس دیو‘ سدھیر مشرا کی سب سے کمزور فلم

’داس دیو‘ کا نام سن کر ایسا احساس ہوتا ہے جیسے یہ ’دیو داس‘ جیسے کسی جذباتی درد کو پردے پر بیان کرے گی، لیکن یہ تو اتر پردیش کے کسی علاقے میں سیاسی رسّہ کشی کی داستان بیان کرتی ہے۔

تصویرسوشل میڈیا
تصویرسوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

فلم کا نام آخر ’داس دیو‘ کیوں رکھا گیا؟ یہ فلم کسی اور عنوان سے بھی ایک فلم یا ڈرامہ ہو سکتی تھی۔ جب اس کا ’دیوداس‘ جیسی بے مثال عشقیہ داستان سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تو اس کی از سر نو تشریح تو دور اس کے ساتھ موازنہ کا دعویٰ بھی کیوں کیا جائے؟ اس فلم کو دیکھنے کے بعد دو سبق ملتے ہیں، ایک یہ کہ ’دیو داس‘ نام کی ہر فلم چاہے اس کا نام الٹا ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے، اس زندہ و جاوید عشقیہ داستان سے ملتی جلتی نہیں ہوتی۔ اور دوسرا سبق یہ کہ اگر کہانی میں ہیرو کا چچا اس کے والد کا قتل کر دیتا ہے تو اس کہانی کو شیکسپئر کی بے مثال تصنیف ’ہیملٹ‘ سے متاثر نہیں تصور کیا جا سکتا۔

جیسے ہی ہم ’دیو داس‘ کا نام لیتے ہیں، ذہن میں کہیں ایک گہری جذباتی چوٹ یا حادثہ کا احساس کروٹیں لینے لگتا ہے۔ لیکن ’داس دیو‘ تو دراصل اتر پردیش کے کسی علاقے میں سیاسی رسہ کشی کے درمیان ’سروائیول‘ کی بات کرتی نظر آتی ہے۔

حالانکہ فلم کا نام ’داس دیو‘ رکھ کر ہدایت کی منشا اس کہانی کو الٹ کر کے ظاہر کرنے کی ضرور رہی ہے، لیکن ماڈرن دیو داس کی جھلک (دیو ڈی) اور پرانے دیو داس کا تیور فلم میں بہت صاف نظر آتا ہے۔ اس لیے دیو داس کے الٹ اس فلم میں کہانی بھی نہیں ہے ۔ فلم کی کہانی بہت سہل ہے۔ حالانکہ کہانی رشتوں کے پیچیدہ گھال میل کو دکھانے کا دعویٰ کرتی ہوئی ضرور نظر آتی ہے۔ دیو وہی امیر، بگڑیل اور نشیڑی نوجوان ہے جو اپنے بیمار چاچا کی سیاست کے کھیل میں مدد کرنے کے لیے اور بالآخر اپنی فیملی کی سیاسی وراثت کو حاصل کرنے کے لیے اپنے گاؤں واپس آتا ہے۔ اس کی بچپن کی دوست پارو بھی ہے جو چاہتی ہے کہ دیو ایک مضبوط اور عزائم سے بھری ہوئی شخصیت بنے، کمزور اور جذباتی نہیں۔

چندر مکھی (چاندنی) ماڈرن دنیا کی ایک کال گرل ہے جو کارپوریٹ گھرانوں اور سیاسی فیملیوں کے لیے لابنگ کرنے کا کام کرتی ہے۔ بدعنوانی اور دھوکے میں گہرائی کے ساتھ پھنسا ہوا دیو آخر کار اپنے والد کی موت کا بدلہ لیتا ہے اور بار بار یہی دہراتے ہوئے کہ ’’چاچا، یو آر سِک‘‘، اپنے چاچا کا قتل کر دیتا ہے۔ سیاسی تکڑم بازی میں ماہر اور اقتدار کے جنون میں مدہوش دیو کا چاچا اودھیش اپنے بیٹے کے قتل کو بھی ایک سیاسی موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ فلم میں صرف چاندنی ہی ایک سمجھدار اور چالاک کردار نظر آتی ہے جو دیو کی ہر حالت میں مدد کرتی ہے۔ آخر میں دیو سب کچھ چھوڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ اپنی پہچان بھی تاکہ وہ سیاست کی بدعنوانی، جرائم اور دھوکے کی دنیا سے دور عام زندگی گزار سکے۔

دیو کے کردار میں راہل بھٹ کہیں بھی اتنے اثر انداز نظر نہیں آتے جتنا کہ دیو داس کے کردار کو ہونا چاہیے۔ چندرمکھی کے کردار میں ادیتی راؤ حیدری اور پارو کے کردار میں رِچا چڈھا سطحی اور بناوٹی لگتی ہیں۔ دراصل دقت یہ ہے کہ سارے کردار اپنے علاقے کے لگتے ہی نہیں۔ اوپری طور پر گہرے سیاسی/عشقیہ تعلقات کے اس سطحی ڈرامہ میں صرف ایک کردار اُبھر کر آتا ہے...ملن۔ اور اس کردار کو نبھایا ہے اداکار وِنیت کمار سنگھ نے۔ انھوں نے اس چھوٹے سے کردار میں بہترین اداکاری کی ہے۔ وہ اس کردار میں حقیقت کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔

ایک تجربہ کار ہدایت کار سدھیر مشرا کی فلم سے کافی امیدیں تھیں لیکن ’داس دیو‘ مایوس کرتی ہے۔ چند ڈائیلاگ کے علاوہ اسکرپٹ بھی بے جان ہے۔ ہدایت کار کے کہانی بیان کرنے کا انداز بھی کمزور اور بے اثر ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس ہفتہ کوئی اور فلم دیکھیں۔ خاص طور پر جب ’ایونجرس: انفنیٹی وار‘ اسی ہفتے ریلیز ہو رہی ہے تو ’داس دیو‘ دیکھنا بے سود ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔